تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ اس سے قبل تو امریکی بار بار ڈو مور کا کہا کرتے تھے اور ہمارے ملک کے پٹھو حکمران اس پر عمل بھی کرتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی بڑھی۔ مگر اب کے صدر امریکا نے ڈونلڈ ٹرمپ نے بل لکل کھل کر پاکستان کو دھمکی دی ہے۔ پہلے ایک فون کال پر ہمارے کمانڈو نے امریکا کے نو کے نو مطالبات مان کر موجودہ دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور افغان طالبان کی جائز اسلامی حکومت کو ختم کیا گیا جو پاکستان کی دوست اور بھارت کی مخالف تھی جس سے پشتونستان کا مسئلہ د ب گیا تھا اور ہماری مغربی سرحد تاریخ میں پہلی مرتبہ محفوظ ہو گئی تھی۔ مگر اب کے بہادر سپہ سالار نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ ہمیں امریکا کی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہم امریکا کی افغانستان کی جنگ کو پاکستان میں کسی صورت بھی نہیں لا سکتے۔
ہم نے دنیا میں سب ملکوں سے زیادہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے ہمارے ٧٠ ہزار شہری اور فوجی شہید ہو چکے ہیں ۔ ہمارے ملک کا ١٥٠ ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ آپ پھر بھی ڈو مور کی رٹ لگا کر دھمکی دی رہے ہیں۔ بلکہ ہم آپ سے اور دنیا سے مطالبہ ہم کرتے ہیں کہ ہماری قربانیوں کا اعتراف کریں۔اب کہ ملک کے وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے وزیر خارجہ نے امریکا کا دورہ بھی منسوخ کیا اور امریکی نائب وزیر کو پاکستان کے دورہ نہ کرنے کا بھی کہاہے جو کہ بلاشبہ پاکستان کے عوام کی ترجمانی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں ڈونلڈ ٹرپپ کی دھمکی کے خلاف عوام نے مظاہرے بھی کئے جا اب بھی جاری ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان نے پورے ملک میں ٦ستمبر کو یوم دفاع کے موقعہ پر لاکھوں نوجوانوں کے احتجاج کے ساتھ ٹرمپ کی دھمکی کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔صاحبو!مغربی دنیا پاکستان کے اسلامی اور ایٹمی ملک ہونے کو قطعی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ویسے بھی امریکا صلیبی ورلڈ پاور ہے وہ کب ایک مسلمان ملک کو پھولتا پھلتا دیکھ سکتا ہے۔ وہ اندرون خانے دوستی کے بہانے پاکستان کو توڑنے کی سازشیں کرتا رہتا ہے۔
اس نے گریٹ گیم کے تحت پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو کمزور کرنے اور بلا آخر اس کے حصے بخرے کرنے کی اسکیم میں بھارت سے دفاعی معاہدہ بھی کر لیا ہے۔ جس میں پشتونستان ، جناح پوراور گریٹر بلوچستان وغیرہ بنانا شامل ہیں۔ بھارت کوایٹمی سپلائر گروپ کا ممبر بھی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکاکے پینٹاگون اور امریکی تھنک ٹینک نے بہت پہلے پاکستان کی تقسیم کے نقشے بھی جاری بھی کیے تھے۔ ہمارے مقتدر حلقوں کو ہم سے زیادہ علم ہے اس لیے وہ سوچ سمجھ کر قدم اُٹھائیں گے۔ گو کہ چین نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے مگر اس وقت پاکستان کو ورلڈ آڈر والے امریکاکے صدر نے کھلم کھلا دھمکی دی ہے اس لیے حفظ ِماتقدم سب سے پہلے پاکستان کوچین اور روس سے دفاعی معاہدے کرنے کی کوشش کرنے چاہیے۔ دوست ملکوں جس میں عرب ملک، ترکی اور ایران شامل ہے سے تعلوقات کو مستحکم کرنا چاہیے۔افغانستان کو بھارت نے پاکستان بننے سے بہت پہلے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے ۔ اس کی تاریخی وجہ ہندوستان پر افغانستا ن سے بادشاہوں کے حملے تھے۔ ہندوستان نے یہ ڈکٹرائین بنایا ۔اوّل کہ ایک تو افغانیوں کو قومیت کے زہر سے مسلح کیا جائے کہ وہ مسلمان ہونے کے بجائے اپنی قومیت پر فخر کریں۔ دوم کہ اس سے قبل کے وہاں سے ہندوستان پر حملے ہوں ان کی ترقیاتی کاموں کے نام سے مدد جاری رکھ کر دل جیتے جائیں تاکہ وہ وہیں رُکھے رہیں اور ہندوستان پر یلغار نہ گریں۔
اسی لیے جب پاکستان بنا تھا تو افغانستان نے سرحدی گاندھی عبدلا غفار خان صاحب جسے افغان پٹھان بابائے پشتونستان کہتے تھے کی شہ پرپاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پشتونستان کا مسئلہ کا کھڑا کیے رکھا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی کے بھارت نوازولی خان صاحب کی شہ پر پشتون زلمے کو افغان حکومت نے فوجی ٹرنینگ دی اور پاکستان توڑنے کی کوشش کی۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اسی نیشنل عوامی پارٹی کے سیکر ٹیری اجمل خٹک نے افغانستان میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران کہا تھا کہ وہ سرخ ڈولی میں بیٹھ کر پاکستان آئے گا۔ اسی لیے بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر غداری کا مقدمہ قائم کیا تھا جسے بھٹو دشمنی میں ڈکٹیٹر ضیا الحق نے ختم کیا تھا۔ حوالہ نیشنل عوامی پارٹی کے منحرف کارکن جمعہ خان صوفی کی کتاب” فریب ِناتمام” )صاحبو! پاکستان بننے کے بعد افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت قائم ہونے تک ہمارے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان نے پاکستان توڑنے کی بھارتی کوششوں میں شامل رہا۔
جب خیبر پختونخواہ میں اسفند یار ولی خان صاحب کی نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تھی تو ولی خان کے بیٹے نے اپنی خاندانی پاکستان دشمنی نباتے ہوئے امریکا کادورہ کیا تھا اور لگتا ہے کی کوئی خفیہ معاہدہ کیا تھا۔ اس پر اخبارات میں ڈیمانڈ کی گئی تھی کہ اس کے مندرجات میڈیا کو بتایا جائیں مگر ایسا نہیں ہوا۔ البتہ بیگم نسیم ولی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں اسفند یار ولی پر الزام لگایا تھا کہ اس نے پشتون قوم کو ڈالروں کے عوض فروخت کیا ہے۔ آزادذرائع کے مطابق لگتا تھا کہ شاید امریکا نے اس معاہدے میں اس بات پر رضا مند ہوا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انگریزوں کی قائم کردہ سرحدڈیو ررنڈ لائن ختم کر کے افغانستان کی پشتون آبادی کو خیبر پختونخواہ کے ساتھ ملا دوں۔ مردہ گھوڑے میں جان ڈالتے ہوئے سرحدی گاندھی بابائے پشتونستان عبدلغفار خان کے خواب کو پورا کر کے پشتونستان بنا دوں گا۔ اس بنا پر اسفند یار ولی خان نے امریکا کی افغانستان میں طالبان کی قائم شدہ اسلامی حکومت کو ختم کرانے کی امریکا کو مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔اپنے لوگوں کو فاٹا میں ٹرینینگ دلائی۔ جب امریکا اور بھارت مل کر فاٹا میں اسفند یار ولی کے لوگوں کو ٹریننیگ دے رہے تھے تواس وقت پرویز مشرف کومیجر جنرل شاہد عزیز صاحب نے خبردار کیا تھا۔ اس ذکر اس نے اپنی کتاب ”یہ خوموشی کب تک” میں کیا ہے۔
صاحبو! ہم سے زیادہ پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ جب ترکی میں مسلمانوں کی خلافت ختم کر کے مسلم دنیا کو درجنوں برائے نام آزاد راجوڑوں میں صلیبیوں نے تقسیم کیا تھا تو اس وقت امریکا کے وزیر دفاع نے ایک تاریخی اعلان بھی کیا تھا کہ دنیا میںاب کہیں بھی مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم نہیں ہونے دیں گے۔ اسی پرانے ڈکٹرائین پر عمل کرتے ہوئے الجزائر اور مصر میں عوام کے ووٹوں سے قائم اسلامی پارٹیوں کی حکومتوں کو ختم کیا گیا۔لیبیا،عراق، شام ، برما ، فلسطین اور کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے امریکی فوجی اسٹبلشمنٹ نے افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی تو امریکی گانگریس میں امریکی وزیر دفاع سے کانگریسی ارکان نے سوال کیا تھا کہ آپ کومعلوم ہے کہ افغانیوں نے اس سے قبل برطانیہ اور روس کی فوجوں کو شکست دی ہے تو وزیر دفاع نے گانگریس کے سامنے اعتراف کیا کہ اس کے لیے ہم نے پہلے سے انتظام کر لیا ہے۔
وہ انتظام کیا تھاکہ اسفند یار ولی سے خفیہ معاہدہ اور پاکستان کے بزدل کمانڈو ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے لاجسٹک سپورٹ حاصل کرنے کی پری پلائنگ اور بلیک واٹر کے پرائیویٹ جنگجوئوں کی بھرتی لگتی ہے۔ امریکیوں نے اس بات کو میڈیامیں مانا تھاکہ جیسے عراق میں بلیک واٹر نے امریکی فوجیوں کی مدد کی تھی ایسے ہی پاکستان میں بھی مدد کر رہی ہے۔ اس کی مثال امریکی ریمنڈ ڈیوس کی ہے کہ اس نے اپنی کتاب ” دی کنٹریکٹر” میں اپنے کرایا کے بلیک واٹر کے کنٹریکٹر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔افغان طالبان نے ٤٠ سے زائد نیٹو فوجوں کو شکست سے دوچار کیا۔ ایک ایک کر کے نیٹو ممالک اپنی فوجیں افغانستان سے نکال کر لے گئے ۔ اب صرف دس ہزار سے کچھ زائد امریکی فوجی افغانستان میں اپنے فوجی چھاونیوں میں موجود ہیں۔ افغان فوجی منحرف ہو کر طالبان سے مل رہے ہیں۔ ساٹھ فی صد ملک پر طالبان کا قبضہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جب افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان کی سرحد محفوظ ہو گئی تھی۔ امریکا نے افغانستان میں شمالی اتحاد کو ملا کر اب پھر سے پاکستان مخالف قوم پرست امریکی بھارت پٹھو حکومت قائم کی ہوئی ہے۔ جو امریکا اور بھارت کے ایما پر افغانستان سے پاکستاسن میں دہشت گردی کر رہی ہیں۔
کلعدم تحریک طالبان پاکستان جسے امریکا،بھارت اور نیشنل عوامی پارٹی نے پاکستان کے خلاف بنایا تھا اس کا سربراہ ملا فضل اللہ اب بھی افغانستان میں ہے اور ر اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی سے مل کر پاکستان پر حملے کر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرنے والے دہشت گرد افغانستان میں امریکی پٹھوحکومت کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور امریکا کے صدر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے خلاف لڑنے والے دہشت گردوں کے ٹکانے پاکستان کے اندر ہیں۔ یہ سراسر غلط الزام ہے۔ بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب امریک صدر پاکستان کو دھمکی دے رہا ہے کہ افغان طالبان سے پاکستان لڑے ۔ اس دھمکی پرپاکستان کے سپہ سالار نے صحیح مؤقف اختیار کیا ہے کہ جب امریکا ٤٠ ملکوں کی فوجی ١٦ سال لڑ کر افغان طالبان کو فتح نہیں کر سکے تو پاکستان ان سے کیسے لڑ سکتا ہے۔ پاکستان امریکا کی افغانستان کی جنگ پاکستان کیسے لا سکتا ہے۔ صاحبو! امریکا ،بھارت اور افغانستان کے دہشت گردوں نے پاکستان کے جنرل ہیڈ کواٹر، نیوی،ایئر فورس، ہوئی اڈوں،خفیہ کے دفاتر ،پولیس ٹرینینگ کیمپ،کمانڈو ٹرینینگ کیمپ،مساجد،امام بارگاہوں،چرچوں،مزاروں ،بازاروں، بچوں کے اسکولوں پر حملے کیے۔ کونسی جگہ ہے جسے دہشت گردوں نے چھوڑا ہے ۔اب امریکا ہم سے افغان طالبان سے لڑنے کا کہہ رہا ہے۔ آپ نے پاکستان کو ڈالروں کی امداد نان نیٹو اتحادی ہونے کی وجہ دے۔ آپ نے پاکستان کے بحری، بری اور ہوئی راستے استعمال کیے۔ہمیں نہ نان نیٹو اتحادی رہنا ہے نہ آپ کو فوجی سپلائی کے لیے راستے دینے ہیں اور نہ ہی طالبان سے لڑنا ہے۔ آپ جانے اور طالبان۔ہمیں آپ کی امداد نہیں چاہیے۔پاکستان کے ٩٠ فی صد عوام آپ کی ان اسلام دشمنی کی وجہ سے آپ کے مخالف ہیں۔ آپ نے ہم سے دوستی کے روپ میں دشمنی کی۔ جب بھارت نے ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کیے تو ہم آپ کے سیٹو سینٹو معاہدے کے تحت اتحادی ہونے کے ناتے آپ سے مدد کا حق رکھتے تھے۔ آپ نے کہا پاکستان کی مدد کے لیے آپ کا ساتوں بحری بیڑا چل پڑا ہے ۔ہمارے ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے اور آپ کا بحری بیڑا آج تک ہماری مدد کو نہ آیا، آپ کے وزیر خارجہ ہنری کیسنگر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں امریکا نے بھی بھارت کی مدد کی تھی۔ یہ ہے آپ کی دوستی؟۔ جب بھارت نے ١٩٦٥ء میں پاکستان پر حملہ کیا تو آپ نے ہماری مدد نہیں کی۔
بلکہ دفاعی سامان کے فاضل پرزوں کی سپلائی تک روک دی ۔کیا یہ ہے آپ کی دوستی؟۔ آپ نے روس کے خلاف جاسوسی کے لیے پاکستان پشاور کے بڈھ بیر کے ہوائی اڈے سے اپنا جاسوسی جہاز یو ٹو اُڑایا۔ جس پر روس پاکستان کا دشمن بنااور ١٩٧١ء میں پاکستان توڑنے میں اپنی ایٹمی گن بوٹس لگا کر پاکستان کے بحری راستوں کی ناکہ بندی کر کے پاکستان توڑنے میں بھارت کی مدد کی۔مگر آپ کا بحری بیڑا پاکستان کی مدد کو نہ آیا۔ یہ ہے آپ کی دوستی؟۔پاکستان نے ایف سولہ جنگی جہازوں کے لیے ایڈوانس میں آپ کو پیسے دیے مگر آپ نے تجارتی وعدہ خلافی کی اور ایف سولہ جہاز وقت پر پاکستان کو مہیا نہیں کیے۔
ایڈوانس پیسوں کے بدلے سوبین کا تیل دیا ۔یہ ہے آپ کی داستی؟۔آپ کہتے ہیں کہ ٧٠ سال سے پاکستان کے دوست ہیں اور ڈلروں سے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں ۔ عجیب دوستی ہے کیسی امداد ہے کہ پاکستان میں بجلی نہیں، گیس نہیں۔ ان کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی ہے۔ بیروز گاری ہے۔پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہے۔ اس کی ایکسپورٹ میں کمی آئی ہے۔ پینے کے پانی نہیں مل رہا۔ حکومتی ہسپتالوں میں مریضوں کو دوائی نہیں مل رہی۔ ملک میںدہشت گردی ہے۔ کہاں ہے آپ کی امداد اور کہاں ہے ملک کی ترقی؟ ہاں قرضے لینے میں خوب ترقی ہوئی ہے۔
آپ کی سفارش پر حکومت کو قرضے ملے ہیں ۔ہر پاکستانی کوایک لاکھ پچیس ہزار کا مقروض بنا دیا گیا ہے۔ باز آئے ہم آپ کی دوستی سے۔ہمیں آپ کے ڈالر نہیں چاہییں۔ ہم بھوکا رہ کر گزاراہ کر لیں گے۔ آپ ہمارا پیچھا چھوڑیں۔پوری قوم اپنے سپہ سالار اور موجودہ حکومت کے ساتھ ہے۔ان کی پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے۔ہم آپ کے ڈو مور کا مطالبہ نہیں مان سکتے۔ہمیں آپ کی امداد نہیں چاہیے۔ ہم آپ کے لیے طالبان سے نہیں لڑ سکتے۔ آپ جانیں اور طالبان جانیں۔ ہم نے آپ کی افغانستان میں جاری جنگ کوپاکستان میں نہیںلا سکتے۔ ہم اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کی پایسی پر کاربند ہیں۔ ہم کسی بھی ملک میں دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ ہماری سرزمین کسی پڑوسی کے خلاف استعمال نہیںہو رہی ۔ ہم پڑوسی ملکوں سے بھی یہی چاہتے ہیں۔ہم ایک ذمہ ایٹمی اور میزائل طاقت ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ ہم وہ کریں گے جو ہمارے ملک کے مفاد میں بہتر ہو گا۔ پاکستان کی مشترکہ پارلرلیمنٹ کا اجلاس بلالیا گیا ہے۔ اس میں امریکا کے صدر کی دھمکی کا جائزا لے کر بعث کی جائے گی۔ اور پاکستان کے مفاد میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اللہ مثل مدینہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔