حضرت اسماعیل کی فرمابرداری

Qurbani

Qurbani

تحریر: چوہدری دلاور حسین
مخلوق ارض اپنی گونا گوں مصروفیت میں اس قدر گِھرچکی ہے کہ دن و رات کا یہ گرداب اپنے اعداد و شمار کہیں کھو چکا ہے ۔وقت کو جیسے پر لگ گئے سٹم نے کور ٹو ڈوکی سی صورت اختیار کر لی۔انسان کی بے پناہ ترقی کے باوجود آج تک کوئی بھی فرد وقت کی رفتار کو قابو کرنے میں ناکام رہا ہے ۔اللہ کریم نے اپنے بندوں کو ہر سال دو عیدین عطا فرمائی ہیںایک میٹھی عید جو رمضان کریم کے اختتام پر خوشیاں منانے کا نام ہے اور دوسری عید جسے عرف عام میں نمکین عید یعنی عید قربان کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اُمت محمدپاکۖ کیلئے خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے “عیدیاں”بہت بڑا تحفہ ہیں۔شہری چاہے دُنیا کے کسی بھی ملک کا ہو “عید قربان”یعنی “عید الاضحی”خاص اہمیت کی حامل ہے یہ “دُنیائے مسلمانان”کو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی عظیم قربانی کی یاد دلوں میں قربانی کے جذبے کو بیدار کرتی ہے ۔حضرت ابراہیم نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں قربان کر رہے ہیںچنانچہ صبح اُنہوں نے یہ خواب اپنے بیٹے کو سنایا ! بیٹے کی فرمابرداری نے رب تعالیٰ کی رضا اور اپنے والد محترم کی عظمت و بزرگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپناسر”تسلیم خم”کر دیا ۔والد سے فرمایا اباجان آپ نے جوخواب دیکھا ہے میں اس کی تکمیل میں آپ کے سامنے حاضر ہوں۔

چنانچہ باپ نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی اور بیٹے کی گردن پر چُھری چلانا شروع کر دی ۔ رحمن کی رحمت جوش میں آئی اور فوراً فرشتے کو حکم دیا گیا کہ وہ اسماعیل کی جگہ دُنبہ وہاں پہنچا دے ۔اِسی اثناء میں اسماعیل کی جگہ دُنبے نے لے لی لیکن جب حضرت ابراہیم نے اپنی آنکھوں سے پٹی اُتاری تو بیٹے کی جگہ دُنبہ ذبح ہو چکا تھا ۔ہر سال ١٠ ذوالحجہ کو منائی جانے والی عیدہمیں اللہ تعالیٰ کے “خلیل اللہ”کے امتحان کی یاد دلاتی ہے ۔ہر سال دیہاتوں اور شہروں میں لاکھوں کی تعداد میںجانور پالے جاتے ہیں جن میں بکرے، دُنبے ،گائے ، بیل، بھینس و اونٹ شامل ہیں ۔قربانی والے جانور جن میںبکرے ، بکری کیلئے عمر کی حد ایک سال گائے، بھینس، بیل اوراونٹ وغیرہ کیلئے عمر5سال ہونا ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر بے عیب ہونا شرط ہے بعض لوگ “آفت مہنگائی”سے بچنے کیلئے عید سے چند ماہ قبل جانور خرید لیتے ہیں اُن کی خدمت کرتے ہیں تاکہ عین عید کے نزدیک مہنگائی و مشکلات کے ” طوفان”سے خود کو بچا سکیں گذشتہ کئی سالوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ عید کے نزدیک “قیمت”آسمانوں سے باتیں کر رہی ہوتی ہے جو بکرا، بکری گذشتہ سال بیس ہزار میں خرید کیا گیا تھا وہ امسال تیس ہزار کے لگ بھگ ہے ۔ جس کی خرید “متوسط طبقے “کیلئے “جوئے شیر لانے”کے مترادف ہے ۔

چارو ناچار نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ خاندان آپس میں ملکر “اجتماعی قربانی” کے حصول کو فوقیت دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ مساجد میں “باہمی شمولیت”کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔تاکہ موٹے فربہ جانور خرید کراس فریضہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔آج منڈی کی تو صورتحال یہ ہے کہ گائے، بیل ایک لاکھ روپے سے کم کسی صورت نہیں مل رہا ۔جانور بیچنے والے اسے “آفت زدہ مہنگائی”میں پے درپے اضافہ سے تشبیہ دیتے ہیں جو بالآخر بیچارے خریدار نے ہی ادا کرنے ہیں ۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس مرتبہ عید سے قبل ہی “کانگو وائرس “کے خوف نے فروخت و خرید کنندہ دونوں کیلئے خوف کے دائرے کھینچ دیے ہیںمنڈیوں میں اس وائرس کے ساتھ جعلی کرنسی اور دہشت گردی کے خوف نے ذہنوں کو مضطرب کر دیا ہے ۔ایسے حالات میں کوئی چھوٹا موٹا جانور خرید کر کے بچوں کی خوشی پوری کی جاتی ہے یا پھر “تکیہ سرہانے”رکھ کر “لب سی”لئے جاتے ہیں ۔دوسری طرف گھر کے باہر جب تک پچاس ہزار کا بکرا یا پھرلاکھ سوا لاکھ کا بیل نہ بندھا ہو تو “سبکی”محسوس کی جاتی ہے ۔خود کو مشکلا ت میں ڈال کر حد درجہ مہنگا جانور خرید کرنا فخر کا باعث ہوتا ہے جس کا قرض سارا سال اُتارا جاتا ہے۔

منڈیوں کے باہر “ٹائوٹ مافیا”کاہر دور میں راج رہا ہے جن کا کام بیوپاریوں و خریداروں سے “بھتہ پرچی”کے عوض اپنا ناجائز حصّہ وصول کرنا ہے ۔ہر منڈی کے باہر ایسے “بھتہ خور”کثیر تعداد میں موجود ہوتے ہیں اور اپنا حق بدمعاشی سے وصول کرتے ہیں۔اسٹینڈز کا تو یہ حال ہے کہ موٹر سائیکل بیس روپے ، کار وغیرہ پچاس روپے میں ٹوکن جاری کیا جاتا ہے پھر یہاں جیب کُترے اپنی کاروائیوں میں مصروف۔ جو اِن اسٹینڈز ٹھیکیداران کے زیر اثر اپنا کام سرانجام دیتے ہیں جیسے ہی عیدا لاضحیٰ کا چند نظر آتا ہے چُھریاں تیز کرنے والی دُکانوں پراس قدر رش کہ چند چھُریاں تیز کرانے کیلئے گھنٹوں دُکاندار کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے ٹوکن ملنے کے اڑتالیس گھنٹے بعد آپ کو تیز دھار آلات مہیا کئے جاتے ہیں اس دوران پیش آنے والی مشکلات قدم قدم پر آزمائش سے کم نہیں ۔امسال ان دْکاندار حضرات نے گٹھ جوڑ کر کے یونین بنائی اور ایک ریٹ تین سو روپے سے کم پر ہرگز آلات تیز نہیں کرنے پر معاہدہ طے پایا ہے جو گاہک حضرات کیلئے پریشانی کا باعث ہے ۔ قربانی کے مقدس فریضہ کو سرانجام دینے کیلئے عید کے دن چار چار افراد پر مشتمل ٹولیاں خود کو “اُم القصاب”ظاہر کرتے ہیں سُرخ رنگ سے رنگ آلود کپڑے وہاتھ میں تیز دھار چُھری اس بات کی علامت ہے کہ یہ ڈیجیٹل قصاب باقاعدگی سے سارا سال گائے و بکری کا گوشت بیچتے رہے ہیں۔ یہ “نہ تجربہ کار”وقتی قصاب جانور کو جدید طریقوں سے ذبح کرنے میں صرف ایک گھنٹہ لگاتے ہیں قربانی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ گوشت و ہڈیاں برابر کر دی گئی ہیں مگر تجربہ کار قصاب جانور کو ذبحہ کرنے کاریٹ اس قدر زیادہ طلب کرتے ہیں کہ الامان الحفیظ ۔قربانی کا بنیادی مقصد تو یہ ہے کہ گوشت جلد از جلد اُن مستحق افراد تک پہنچایا جائے جنہیں سارا سال ایک بوٹی تک نصیب نہیں ہوتی۔

ریفریجریٹرز و ڈیپ فریزرز کو فل کر لینا یہ سرا سر گناہ ہی نہیں بلکہ مستحقین کے ساتھ ظلم و ذیادتی ہے ۔قربانی کے بعد بہت سے لوگ جانوروں کی کھالوں کو محض کاروبار بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ اُن لوگوں کا حق ہے جو اس کے حقدار ہیںیعنی سب سے پہلے اپنے عزیز رشتہ داروں کا انتخاب کیا جائے اُس کے بعد پڑوسیوں کی طرف نظر دوڑائی جائے یا پھر مستحق طلباء کو فوقیت دی جائے جن کے وسائل محدود ہونے کے باعث وہ تعلیمی میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے محروم رہتے ہیں۔اگر اُن کی مدد کر دی جائے تو اس سے اُن کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا وقتی طور پر کچھ آسان ہو جاتا ہے ۔عموماً گھر کی خوبصورتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سڑک یا گلی میں جانور ذبح کر دیا جاتا ہے اورقربانی کے بعد گھروں کے باہر جانوروں کی الائش پھینک دی جاتی ہے جس سے جگہ جگہ گندگی کی وجہ سے ماحول “تعفن زدہ وبدبودار”ہوجاتا ہے لہذا ضروری ہے کہ اس مقدس فریضے کی انجام دہی کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لائیں اور اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں ۔ یا کریم ہم سب کی قربانی قبول و منظور فرما اور ہم سب کو صحیح سمت عطا فرما(آمین)۔

تحریر: چوہدری دلاور حسین
0336-7461234
dilawarhussain29@gmail.com