تحریر : خان فہد خان آف پھولنگر ہر سال 10ذی الحج کواہل اسلام عید الاضحٰی بڑے جوش جذبے سے مناتے ہیں۔اس دن کروڑوںفرزندان اسلام سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے بکرے ،دُنبے،گائے،بیل یا اونٹ کی قربانی کرتے ہیں۔اس لیے تو آج کل مویشی منڈیوںمیں خریداروں کا بہت رش ہے بلکہ اب تو ہر گلی ،محلہ ہی مویشی منڈی کامنظر پیش کر رہاہے۔جس گلی میں دیکھودو ،چار مویشی ضرور نظر آئیں گے جن کو دیکھ کر عید کی آمد آمد محسوس ہوتی ہے ۔ان مویشیوں کی محلوں میں آمد سے گلی محلوں کی رونق میں اضافہ ہو جاتا ہے۔آج مہنگائی کے اس دور میں امیر کے ساتھ ساتھ غریب آدمی کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کرے۔ تب ہی تو ہر کوئی اپنی حثیت سے بڑھ کر سنت ابراہیمی کی ادائیگی کیلئے جانور خریدتا ہے اور 10ذی الحج کو نماز عید کی ادائیگی کے بعد اللہ کی راہ میں قر بان کر دیتا ہے۔
ہر سال کروڑوں مسلمان ہزاروں ،لاکھوں روپے لگا کر ایک معصوم جانور کو حلال کر کے اس کے گوشت سے باربی کیو،نہاری،پلائو بنا کر کھا کر فرض سے فارغ ہو جاتے ہیںلیکن اس قربانی کی اہمیت اور سبق سے نا آشنا ہیں۔ہم سب نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ جو ہر سال ہم قربانی کرتے ہیں آخر اس کا درس کیا ہے یہ عمل ہمیں کیا سکھا رہا اور ہماری توجہ کس جانب مبذول کروا رہا ہے ۔آخر اللہ رب العزت نے کو ئی سبق دینے کیلئے ہی سنت ابراہیمی کو زندہ رکھا ہے۔لیکن ہم ہر سال اللہ کی راہ میںجانور کی قربانی کرتے ہیںاور اس کے کلیجی ،پائیوں ،چانپوںاور گول گول گوشت پرتوخودہی قربان ہوجاتے ہیں۔
کیا یہ ہی قربانی ہے ………………..؟ہماری سوچ ہی نہیںہوتی کہ ہم اس قربانی سے کوئی سبق حاصل کریں۔ اصل میںہم بطور رسم یا رواج کے تحت قربانی کا عمل دھراتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہو تا تو کیا آج ہم گوشت کی چھانٹی کر رہے ہوتے ۔ ہم میںسے کچھ لوگ وسائل نہ ہونے کے باوجود دنیاوی رکھ رکھاو کی وجہ سے توکچھ دنیا کو دکھانے کیلئے کئی کئی جانوروں کی قربانی کرتے ہیںاور پھر فریج کو گوشت سے بھرتے ہیں۔ابھی کل ہی میں نے خبرپڑھی کہ عید قرباں کے قریب آتے ہی فریج اور ڈی فریزر کی خریداروں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔اگر ہم نے قربانی اللہ کی رضا کی خاطر کی ہو تو ڈی فریزر نہ بھرتے پھرتے بلکہ اس کی تقسیم بھی اسی کی حکم کے مطابق کرتے کہ سارے گوشت کو اچھی طر ح ملا کر اس کے تین حصے کرتے جس میں سے ایک حصہ غریبوں ،مسکینوںکا دوسراحصہ عزیز رشتہ داروں کا تیسرا حصہ قربانی کرنیوالے خود رکھتے ۔مگر ہم گناہ گار بندے جو سارا سال لوگوں کے حق کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں وہ اس قربانی کے گوشت کو بھی اپنی مرضی سے بانٹتے ہیں۔ اب کچھ لوگ سوچ رہے ہوںکہ ہم تو ایسا نہیں کرتے ارے بھائی اگر آپ گوشت کو مکمل ایمانداری سے بانٹ بھی دو مگر قربانی کا اصل سبق ہی نہ سیکھا تو بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ قربانی کا اصل مقصد جانور کے گوشت کی اچھی تقسیم ہی نہیں بلکہ اس قربانی کے پیچھے ایک عظیم قربانی اور فرمانبرداری کی مثالی داستان اور ساتھ کئی اسباق جڑے ہیں۔
اگر ہم نے اس درس کو ہی نہ سوچا،سمجھا تو میرے خیال میں قربانی کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو آپ کی قربانی کا خون یاگوشت نہیںپہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کی نیک نیت ،خلوص کا اجر عطا کرتا ہے ۔مگر ہم کو اس قربانی کے درس کی کیا خبر کہ یہ قربانی کس فرمانبرداری اور اطاعت کے بعدصاحب استطاعت مسلمانوں پر فرض کی گئی ۔قربانی کا درس ،قربانی کی یاد،قربانی کا مقصدیہ سب ہم کو بتائے کون ہماری توجہ اس طرف دلائے ہمارے عالم ،پیش امام ،خطیب، مولوی سب کے سب سنی ،شیعہ، وہابی، دیووبندی اور فرقہ واریت کی جنگ میں کود پڑے ہیں ۔ سب کا اپنا اپنا مسلک ہے اپنی اپنی مسجد ،اپنی اپنی تفسیر اور فتوے ہیں۔یہ تو ایک دوسرے کو کفر کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے اور اپنے مومن ہونے کی دلیل بیان کرتے نظر آتے ہیںایسی صورت حال میں ہم کو عید قرباں کا درس کون سمجھائے گا …..؟
بہر حال عید قرباں عظیم قربانی اور فرمانبرداری کے مثالی واقعہ کی یاد تازہ کرتی ہے اور ہمیں درس دیتی ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم نے اللہ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اپنے لخت جگر کو قربانی کیلئے پیش کیا اسی طرح ہمیں اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اپنی جان و مال کی قربانی کیلئے ہر وقت تیار رہناچاہیے۔ہم اپنی تمام نفسانی ،جذباتی خواہشات کو قربان کرکے حکم الہٰی کی پیروی کرتے ہوئے صراط مستقیم پر چلیں۔عید قرباںبچوں کو والدین کی فرمانبرداری کا بھی درس دیتی ہے کہ کس طرح حضرت اسماعیل باپ کی فرماں برداری میں قربان ہونے کو تیا رہو گئے۔جبکہ والدین کیلئے کھلا درس ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی کیلئے مال و دولت ،زمین و جائیداد یہاں تک کہ اولاد کی قربانی بھی دینی پڑے توخوش خرم حکم الہی کو تسلیم کریں۔ عیدقرباں پر گوشت کی تقسیم ہمیں انصاف کے ساتھ ساتھ غریب اور نادار لوگوں ،رشتے داروںکو خوشیوں میں شامل کرنے کا درس دیتی ہے۔اس درس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
میرے معزز قارئین اس بار جب 10ذی الحج کو عید کی نماز پڑھ لیں تو عید گاہ سے یہ عزم لیکر نہ لوٹنا کہ اب جا کر جلدی جلدی قربانی کریں اور ہانڈی پکائیں مزے اُڑائیںبلکہ عزم یہ ہوکہ اے اللہ آج تیرے حکم کی پیروی اورتیرے پیغمبر کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے ایک جانور قربان کرنے جا رہا ہوں اگر اس دن حضرت ا ابراہیم کے بیٹے کی قربانی ہو جاتی تو میں بھی آج اپنے لخت جگر قربان کرنے کیلئے تیار ہوتا۔جب جانور کے گلے پر چھری چلاو تو یہ سمجھنا کہ یہ چھری آج میرے نفس پر چل رہی ہے جو مجھے میرے رب کی نا فرمانی پر مجبور کرتا ہے۔ یہ دعا کرنا کہ اے میرے رب میں تیری خوشنودی کیلئے ہر وقت کوشاں اور دعا گو ہوں تو میری اس قربانی کو قبول فرما بے شک تو بہتر اجر دینے والا ہے ۔اللہ تیرے حکم پر صرف ایک جانور کی قربانی ہی نہیں بلکہ ہم تیری رضا کی خاطر اپنے مال واسباب ،تن من ،اولادغرض یہ کے ہر اُس خواہش اور حسرت کی قربانی کرنے کو تیار ہیںجس سے ا تو راضی ہو جائے ۔آخر میں میری اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور قربانی کے درس کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)