تحریر : طارق حسین بٹ شان ١٩٩٧ کے انتخابات میں پہلی بار میاں محمد نواز شریف نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی سمیٹی تو اسٹیبلشمنٹ پھولے نہیں سما رہی تھی کہ پی پی پی جیسی انقلابی جماعت ان کے پالے ہوئے ایک صنعتکار کے ہاتھوں زیر ہو گئی ہے۔اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا سارا زور پی پی پی کو نیچا دکھانے پر لگا رہتا تھا لہذا ن کی خوشی دیدنی تھی کہ ان کے پالے ہوئے پہلوان نے پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کو شکست سے دوچار کر کے بھٹو ازم کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ان کے لئے بھٹو کی مقبولیت کو مٹی میں ملانا اس بات سے زیاد اہم تھا کہ میاں محمد نواز شریف دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہو گئے ہیں۔جسے بزور پھا نسی دی گئی ہو اسے اپنی آنکھوں کے سامنے ہارتے دیکھنے سے جو تسکین مل سکتی ہے وہ بیان سے باہر ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے قائدِ عوام ذولفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کے ذریعے اپنے راستے سے ہٹا تودیا لیکن عوام نے عدلیہ اور فوج کے اس باہمی گٹھ جوڑ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کے گلے کا کانٹا بن گئی ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی پی پی ملک میں حقیقی جمہوریت کی ترجمان تھی جسے اسٹیبلشمنٹ کسی بھی قیمت پر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھی اوراسی فکری دوری کی وجہ سے پی پی پی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت سمجھا جا نے لگا ۔اورپھر جب کسی جما عت پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا لیبل لگ جائے اس کی خوب درگت بنائی جاتی ہے اور یہی سب کچھ پی پی پی کے ساتھ ہوا تھا اور خوب ہوا تھا۔
اسے نہ صرف ذلیل و رسوا کیا گیا بلکہ اس کی قیادت کے خلاف کرپشن جیسے الزامات کاڈھونڈورا بھی پیٹا گیا جس کے ثبوت کے طور پر آصف علی زرداری کو گیارہ سالوں تک زندانوں کی سختیوں کے حوالے کیا گیا تا کہ عوام کی نگاہ میں پی پی پی کی شہرت اور وقار داغدار ہو جائے اور عوام کرپشن کے الزامات کی وجہ سے پی پی پی سے اظہارِ لا تعلقی کر لیں لیکن عوام نے ذولفقار علی بھٹو کی محبت میں ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔دنیا اس بات سے بخوبی آگا ہ ہے کہ ذولفقار علی بھٹو کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی،محترمہ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتیں کرپشن کے الزامات کے تحت فارغ کی گئیں جبکہ ان پر کرپشن کے سارے الزامات عدالت میں ثابت نہ کئے جا سکے۔میاں محمد نواز شریف کو ایک دفعہ کرپشن جبکہ دوسری دفعہ طیارہ سازش کیس میں فارغ کیا گیا جبکہ تیسری بار ان کے مقدر کا فیصلہ اس اقامے کی بنیاد پر ہوا جو انھوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے لے رکھا تھا۔سپریم کورٹ میاں محمد نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے تحت فارغ کرتی تو کوئی بات بھی بنتی لیکن سپریم کورٹ بوجوہ ایسا نہ کر سکی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میاں محمد نواز شریف عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے کیلئے میدان میں نکلے ہوئے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو اپنی حدود میں رکھنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں نیب ان تمام مقدمات کا جو پانا ما لیکس کی بنیاد تھے میاں محمد نواز شریف پر نئے مقدمات دائر کرنے کی بھر پور تیاری کر رہی ہے جس کے بعد عوام کو فیصلہ کرنے آسانی ہو جائیگی کہ میاں محمد نواز شریف نے اپنے دورِ اقتدار میں کرپشن سے ہاتھ رنگے تھے یا یہ ساری افسانہ طرازی ہے،؟ ان کے گناہ گار ہونے یا بے گناہ ہونے کا وقت بالکل قریب ہے۔ ،۔
یہ بات ہر شخص کے علم میں ہے کہ جنوری ١٩٩٧ کے انتخابات سے قبل ٥٨ ٹو بی آئینِ پاکستان کا حصہ تھی جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ایک ایسا مہلک ہتھیار تھا جس کے وار سے وہ منتخب حکومتوں کو نشانہ بناتی اور گھر بھیج دیتی تھی ۔سیاسی جماعتیں اتنی منظم اور طاقتور نہیں تھیں کہ وہ اس طرح کے مہلک وار کا مقابلہ کر سکتیں لہذا ان کے پاس اسٹیبلشمنٹ کا وار سہنے اور ان کے سامنے سر نگوں ہو نے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوتاتھا۔جنوری ١٩٩٧ میں میاں محمد نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملنا تھی کہ انھوں نے ٥٨ ٹو بی کی جمہوریت کش آئینی شق کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور ٥٨ ٹو بی کو آئین سے نکالنے کا ترمیمی بل اسمبلی میں پیش کرنے کا عندیہ دے دیا جس پر اسٹیبلشمنٹ نے انتہائی ناراضگی کا اظہار کیا لیکن میاں محمد نواز شریف کسی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں تھے ۔اس زمانے میںمسلم لیگ (ن) کو نیشنل اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی لیکن سینیٹ میںان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں تھی جس کی قوت سے وہ ٥٨ ٹو بی کا خاتمہ کر سکتی لہذا انھیں دوسری جماعتوں کی مدد اور اعانت کی ضرورت تھی۔یہی وہ مقام تھا جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی للکار فضا میں گونجی۔انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ اگر مسلم لیگ (ن) ٥٨ ٹو بی کے خاتمہ کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرے گی تو پی پی پی اس کا بھر پور ساتھ دے گی۔
اصولا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو ٥٨ ٹو بی جیسے قانون کے خاتمے کے بل کی مخالفت کرنی چائیے تھی کیونکہ اس قانون کی موجودگی میں پی پی پی اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف کی حکومت ختم کروانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر سکتی تھی جس سے اس کے اقتدار کی راہیں کشادہ ہو سکتی تھیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹونے ایسا کرنے کی بجائے جمہوریت کو مضبوط کرنے اور اسے اسٹیبلشمنٹ کے خونیں پنجوں سے بچانے کی راہ چنی جسے جمہوریت پسند حلقوں نے کھل کر سراہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو چاہتیں تو وہ بھی مصلحت پسندی کی راہ کا انتخاب کر سکتی تھیں لیکن ایسا کرنے کی بجائے انھوں نے سچا جمہوریت پسند ہو نے کا ثبوت دیا۔بڑے لیڈر کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ اس کی سوچ ذاتی نفع و نقصان سے ماورا ہوتی ہے ۔اس کی نظر میں قومی مفاد اس کے ذاتی مفاد سے بر تر ہوتا ہے لہذا وہ قومی مفاد کے سامنے اپنے ذاتی مفاد کو ہیچ سمجھتی ہے ۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ پی پی پی کی بنیادوں میں ذولفقار علی بھٹو کا خون شامل ہے جوپی پی پی کو کسی ایسی راہ کی جانب جانے نہیں دیتا جس سے ملک میں جمہوریت پر حرف آئے اور جمہوریت کمزور ہو۔جمہوریت پی پی پی کا اوڑھنا بچھونا ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے کردار سے ثابت کیا تھاکہ وہ جمہوریت کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں ۔میثاقِ جمہوریت اس کی سب سے درخشاں مثال تھا جس نے ملک میں جمہوری رویوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور آئینی حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔،٥٨ ٹو بی کے سٹرائیک ڈائون ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ سراسیمگی کی کیفیت میں تھی کیونکہ حکومتیں برخاست کرنے کیلئے اس کے ہاتھ بندھ گئے تھے لیکن اس نے کمال چابکدستی سے آئین میں درج شق ٦٢ اور ٦٣ کے تحت وزیرِ اعظم کو فارغ کرنے اور سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور انتشار پیدا کرنے کا ایک نیا ہتھیار ہاتھ میں لے لیا جس نے جمہوری روح کو لہو لہان کر دیا ہے۔
ہر جمہوریت پسند شخص حیران و پریشان ہے اور ایک دوسرے سے سوال پوچھ رہا ہے کہ پاکستان میں وزیرِ اعظم کا مرتبہ،وقار اور اوقات کیا ہے کیونکہ اسے تو سپریم کورٹ نے ایک اقامے پر فارغ کر دیاگیا ہے ۔میاں محمد نواز شریف آئین کی شق ٦٢ کے تحت وزارتِ عظمی سے فارغ کئے جا چکے ہیں جس سے وہ انتہائی جارحانہ موڈ میں ہیں اور ان کی طرف سے آئین میں ترامیم کرنے اور ملک میں ایک نئے عمرانی معاہدے کو رو بعمل لانے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ٥٨ ٹو بی کا خاتمہ میاں محمد نواز شریف کے ہاتھوں سر انجام پا یا تھا اور اب آئینی ترامیم کا معرکہ بھی انہی کے ہاتھوں سر ہو گا کیونکہ چھوٹے صو بوں کی قیادتوں میں وہ دم خم نہیں ہوتا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو سکیں ۔ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے لہذا پنجاب کی قیادت ہی پنجاب کی پروردہ اسٹیبلشمنٹ کو ناکوں چنے جبوانے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ بظاہر تو یہ نا ممکن نظر آتا ہے لیکن وہ لوگ جو پارلیمنٹ کی قوت کا ادراک رکھتے ہیں انھیں خبر ہے کہ پارلیمنٹ کسی بھی قانو ن میں ترمیم کا استحقاق رکھتی ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کی پہلی ترجیح آئین میں ترمیم ہے جسے دیر یا بدیر حقیقت کا جامہ پہننا ہے کیو نکہ اسی کا نام حقیقی جمہوریت ہے۔عوامی مینڈیت کی توقیر جسے کوئی چھونے کی جرات نہ کر سکے ۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال