وہ میرا چاند کوئی چاند سی عادت رکھتا میرا ہوتا تو یوں مجھ سے نہ عداوت رکھتا اپنے تو چاہنے والوں سے محبت رکھتا اس کی آنکھوں میں جو انسان شناسی ہوتی دور افتادہ فقیروں سے بھی نسبت رکھتا میرے آنسو نہ اسے چین سے سونے دیتے اپنی ہر سوچ میرے غم سے عبارت رکھتا یوں سرِراہ مجھے چھوڑ کے جاتا نہ کہیں آخری سانس تلک مجھ سے رفاقت رکھتا میرے آنگن کے اندھیروں سے نہ خائف رہتا وہ میرا چاند کوئی چاند سی عادت رکھتا اس نے کیوں درد کے لمحات کو تقدیر کہا آئینہ ساز تھا، آئینہ طبیعت رکھتا کاش وہ میری طرح حرف کی عظمت بن کر بے ہنر فن کے خدائوں سے بغاوت رکھتا