تحریر: عابد علی یوسفزئی رات کی تاریکی گہری ہوچکی تھی۔ گرمیوں کا زور ٹوٹنے کے بعد راتیں کافی سرد ہو چکی تھی۔ پر امن ملک کے پر امن شہری پر سکون نیند کے مزے لے رہے تھے۔ اچانک قیامت صغری برپا ہوگئی۔ زمین نے آگ اگلنا شروع کر دیا۔ آسمان نے آگ برسانا شروع کر دیا۔ پڑوس کے ایک مکار ازدلی دشمن نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رات کے تاریکی میں یہ سوچ کر حملہ کر دیا کہافواج پاکستان بے خبر اور عوام سوئے ہوں گے۔ ہمارے اچانک حملے سے ان کے حوصلے پست پڑ جائیں گے اور ہم آسانی سے لاہور شہر کو قبضہ کر لیں گے۔ ان کو شائد یے خبر نہ تھی کہ مسلمان سو تو سکتا ہے مگر غافل نہیں ہوسکتا۔ افواج پاکستان کے قدم اس اچانک حملے کے وقت مضبوط تھے ان کے حو صلے رات کی تاریکی اور دشمن کی جارحیت پست نہ کرسکے۔ عوام اور افواج پاکستان نے ایک تاریخ رقم کردی۔ یوم دفاعِ پاکستان ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کے شہیدوں جری جوانوں نے اپنی سرحدوں کے بہادر اور غیور پاسبانوں کی فہرست میں اپنا نام رقم کیا۔ ان کی شجاعت کے ناقابل یقین کارناموں کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ ان کی فرض شناسی اور حب الوطنی جدید جنگوں کی تاریخ میں درخشندہ مقام پر فائر کی جا سکتی ہے۔ان کا یہی جذبہ شجاعت تھا جس نے پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے پانچ گنا بڑے اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ یہ ایک تاریخی معرکہ تھا جس میں ہمت اور حوصلوں کی بے مثال کہانیوں نے جنم لیا۔ پوری دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کے عوام اور افواج دشمن کے عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور اس کے منصوبے خاک میں ملا دیئے۔
آئیے اس جنگ کا پس منظر دیکھتے ہیں۔ 1962ء میں بھارت نے چین کو دعوت مبارزت دی مگر منہ کی کھائی۔ چین از خود جنگ بند نہ کردیتا تو بھارت صدیوں تک ذلت کے داغ دھو نہ سکتا۔ 1965ء میں بھارت نے رن کچھ کے محاذ پر پاکستان سے پنجہ آزمائی کی مگر ذلت اٹھانا پڑی۔ جس پر بھارتی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اب ہم مرضی کا محاذ منتخب کر کے پاکستان کو مزا چکھائیں گے۔ چنانچہ بھارت نے 6 ستمبر کو اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ وسط میں لاہور پر حملہ کے ساتھ شمال میں جسٹر کے مقام پر اور جنوب میں قصور کے مقام پر محاذ کھول دئیے جائیں۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسواں ڈویڑن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ستلج رینجرز کے مٹھی بھر جوانوں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ان کی پلٹنوں کے تمام جوان آخری گولی اور آخری سانس تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ نہ کوئی پیچھے ہٹا،نہ کسی نے ہتھیار ڈالے۔
بھارتی فوج جسے لاہور کے مضافات میں ناشتہ کرنا تھا، پو پھٹنے تک بمشکل تین میل آگے بڑھ سکی۔ اس محاذ پر پاک فوج کے زیر کمان قوت صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ 50 میل لمبا تھا۔ لاہور میں داخل ہونے کے لئے باٹا پورکے پل پر قبضہ ضروری تھا۔ چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لئے نہر بی آر بی کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا۔ دن کو یہ کام نا ممکن تھا۔ دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی۔ پل تک دھماکہ خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہو گیا۔ اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا۔ اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آگئے۔ ان کا واپس آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یوں لاہور میں داخل ہونے کی بھارتی امیدیں منقطع ہو گئیں۔ اس کے بعد 17 دنوں کے دوران بھارتی فوج نے 13 بڑے حملے کیے مگر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔
باٹا پور سے شکست کھانے کے بعد بھارت نے بھینی کے محاذ پر دباؤ سخت کر دیا۔یہ مقام باٹا پور سے 7 میل شمال کی طرف واقع ہے۔ دشمن کا ارادہ تھا کہ وہ لاہور شہر کو ایک طرف چھوڑ کر بھینی کے راستے محمود بوٹی پر بند پر پہنچے اور وہاں سے راوی کے پل پر قبضہ کر کے لاہور کو راولپنڈی سے کاٹ دے۔ چنانچہ یہاں دشمن نے 19 حملے کیے اور تقریباً 1500گولے برسائے مگر ہر حملے میں منہ کی کھا کر پسپا ہو گیا۔ برکی سیکٹر پر دشمن نے ایک ڈویژن اور دو بریگیڈوں کی مدد سے حملہ کیا۔ پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی اس پر ٹوٹ پڑی اور پورے 9 گھنٹے تک دشمن کی یلغار روکے رکھی۔ دشمن نے دوبارہ صف بندی کرنے کے بعد حملہ کیا تو پاکستان کی ٹینک شکن رائفلوں اور توپخانوں کے گولوں نے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔10 ستمبر تک دشمن نے چھ حملے کیے جنہیں پسپا کر دیا گیا۔ 10 اور11 ستمبر کی درمیانی شب دشمن نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا۔ میجر عزیز بھٹی رات بھر دشمن کو روکے رہے۔ صبح کے قریب دشمن نے نہر کی طرف سے بھی گاؤں کو محاصرے میں لے لیا تو میجر عزیز بھٹی نے نہر کے مغربی کنارے پر چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ 12 ستمبر کی صبح وہ ذاتی سلامتی سے بے نیاز ہو کر نہر کے کنارے ایک اونچی اور کھلی جگہ پر کھڑے اپنے جوانوں کی قیادت کر رہے تھے اور اسی مقام پر انہوں نے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ بہادری کی بے مثال روایت قائم کرنے پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔
بھارتی ہائی کمانڈ نے قصور کی طرف پیش قدمی کامیاب بنانے کے لئے بھیکی ونڈ اور کھیم کرن کے نواح میں تقریباً دو ڈویڑن فوج صف آراء کی۔ اس محاذ پر ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں بیدیاں کو پیش قدمی کے آغاز کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ اس رات یہاں پاکستانی فوج کی صرف ایک بٹالین موجود تھی۔ اگلے دفاعی مورچوں میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی صرف ایک کمپنی صف آراء تھی۔ یہاں دشمن نے 14 بڑے حملے کیے مگر پاکستانی جوانوں نے انہیں ایک انچ آگے بڑھنے نہ دیا۔ قصورکے بعد دشمن نے کھیم کرن کے محاذ پر اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی فضائیہ بھی محاذ پر آ گئی مگر پاکستانی طیارہ شکن توپوں سے وہ جلد ہی پسپا ہو گئی۔ دشمن کے سات ٹینک تباہ ہوئے تو اس کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی8 ستمبر کو کھیم کرن پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا۔ بھارتی کمانڈر انچیف نے پسپا ہوتی ہوئی فوج کو مزید کمک بھیجی تاکہ کھیم کرن واپس لے سکے۔ ضلع ساہیوال میں بین الاقوامی سرحد سے اندازاً ایک میل ادھر دریائے ستلج پر سلیمانکی ہیڈ ورکس واقع ہے۔ یہاں سے نکلنے والی نہریں ملتان اور بہاولپور کے وسیع علاقوں کو سیراب کرتی ہیں۔ اس اہم خطے پر دشمن کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا۔ ہماری افواج نے دشمن کی پیش قدمی کا انتظار کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر دشمن کے حوصلے پست کر دیئے۔
موضع نور کی چوکی صرف ایک ہی پاکستانی پلاٹون نے شب خون مار کر فتح کر لی۔ ان مقامات پر شکست کھانے کے بعد دشمن نے موضع پکا میں دفاعی پوزیشن لے لی۔ اس کے پاس ہر قسم کا اسلحہ موجود تھا۔ دونوں فوجوں کے درمیان سیم زدہ دلدلی علاقہ اور ایک جھیل حائل تھی۔ پاکستانی فوج کی ایک کمپنی نے توپوں اور مشین گنوں کی اندھا دھند فائرنگ سے دشمن کی یلغار روک دی۔ جنگ بندی کے قریب دشمن نے ایک بار پھر بھرپور حملہ کیا جس پر دشمن کے ڈیڑھ سو آدمی مارے گئے۔ لاہور پر حملے کے چوبیس گھنٹے بعد بھارتی فوج نے تقریباً 500 ٹینک اور 50000 فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر اچانک حملہ کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے صرف سوا سو ٹینک اور تقریباً نو ہزار جوان میدان میں آئے۔ بھارتی منصوبہ یوں تھا کہ پہلے جسٹر پھر سچیت گڑھ پر حملہ کیا جائے۔ ہر دو مقامات پر پاکستانی فوج الجھ جائے گی تو حملہ آور فوج درمیان سے گزر کر پسرور سے ہوتی ہوئی جی ٹی روڈ پر پہنچ جائے گی۔ جسٹر کے مقام پر پاک فوج نے صرف دو بٹالینوں کے ساتھ حملہ آور فوج کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا۔ ادھر سچیت گڑھ میں بریگیڈیر ایس ایم حسین نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔7 اور8 ستمبر کی درمیانی رات بھارتی فوج نے چونڈہ کے محاذ پر حملہ کردیا۔ اس محاذ پر پیدل فوج کی دو بٹالین اور ایک آرمرڈ رجمنٹ دشمن کے استقبال کو موجود تھیں۔ جنگ کا میدان گرم ہوا تو پاکستان کے صرف تیس ٹینکوں نے بھارت کے ایک سو دیو ہیکل ٹینکوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ دشمن کا پروگرام 24گھنٹے کے اندر چونڈہ سے آگے بڑھ جانا تھامگر اب72 گھنٹے بعد بھی وہ ایک انچ آگے نہ بڑھ سکا تھا چنانچہ وہ مزید طاقت لے کر میدان میں اتر آیا اور اس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی جنگ کا دوسرا بڑا میدان گرم ہوا۔ گولہ بارود سے فضا دھواں دھار تھی۔ پاکستانی ہیڈ کوارٹرز نے حکم دیا تھا کہ جب تک آخری جوان باقی ہے اور ایک بھی گولہ موجود ہے چونڈہ کا دفاع کیا جائے۔
بھارتی جرنیلوں کے پاس تازہ دم فوج، ٹینکوں اور گولہ بارود کی کمی نہ تھی۔ وہ 17 ستمبر کو تازہ دم فوج میدان میں لے آئے اور چونڈہ کے مغرب میں ریلوے لائن سے سڑک کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جہاں ہمارے افسر اور جوان گھات لگائے بیٹھے تھے۔ ٹینکوں کے انجن بند کر دیئے گئے تھے تاکہ دشمن کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہو سکے۔ جب دشمن کی پوری جمعیت اپنی کمین گاہ سے نکل آئی تو انہوں نے فائرنگ کا حکم دے دیا۔ دشمن کے صرف105 سپاہی زندہ بچے جنہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔
بھارت چاہتا تھا کہ پاکستانی فوج کو کارگل سے لے کرتھرپارکر تک تقریباً ڈیڑھ ہزار میل لمبی سرحد پر پھیلا کر کمزور کر دیا جائے، چنانچہ راجستھان کے محاذ پر بھارتی فوج کی ایک پیدل بٹالین نے ٹینکوں کے دو اسکوارڈرنوں کی مدد سے گدرو پر حملہ کر دیا۔ یہاں مٹھی بھر رینجرز نے دشمن کی یلغار کو تین گھنٹے تک روکے رکھا۔ 9 ستمبر کو آگے بڑھ کر مونا باؤ پر گولہ باری شروع کر دی۔ اس اسٹیشن سے بھارتی فوج کو رسد پہنچ رہی تھی۔ صرف سترہ گولے برسانے سے دشمن کی فوج میں کھلبلی مچ گئی۔ مونا باؤ پر قبضہ کرنے سے دشمن کی سپلائی کٹ گئی۔ اس معرکے میں سندھ کے مجاہدین بھی اپنی فوج کے دست وبازو بن گئے۔ سندھ کے محاذ پر روہڑی، کھاری، جے سندھ اور متراکی فوجی چوکیوں پر پاکستانی جوانوں نے قبضہ کر لیا۔ حیدرآباد کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والی بھارتی فوج ایک ہزار دو سو مربع میل کا علاقہ گنوا بیٹھی۔ چھمب کے محاذ پرپہلی دفعہ بھارت سے فضائی جھڑپ ہوئی۔ چند لمحوں میں دشمن کے چار اعلیٰ ویمپائر طیاروں کو مار گرایا۔ اس کے بعد اس محاذ پر اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اور فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی خان نے دشمن کی زمینی فوج کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ پاک فضائیہ کے ایک اسٹار فائٹر”ایف104”نے دشمن کا جہاز پسرور کے ہوائی اڈے پر اتارکر اسکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔
6 ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو فضاؤں میں بھی مڈ بھیڑ ہونے لگی۔ پاک فضائیہ کے دو اسٹار فائٹر نے دشمن کے چار طیاروں کا مقابلہ کیا اور ایک کو گرانے میں کامیاب ہو گئے۔ لاہور پر بھارتی فوج کے حملے کے بعد چھ سیبر طیارے فضا میں یکدم نمودار ہوئے اور پورے بیس منٹ تک دشمن پر بموں’ راکٹوں اور گولیوں کی بارش کرتے رہے۔ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کی تباہی نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ یہ کارنامہ سرخیل سجاد حیدر نے انجام دیا۔ انہوں نے نہایت نیچی پرواز کر کے دشمن کے بارہ جنگی اور دو ٹرانسپورٹ طیارے اڈے پر کھڑے کھڑے ہی تباہ کر دئیے۔ اس کے علاوہ اڈے کو مزید کام دینے کے لئے ناکارہ بھی کر دیا۔ فضائی معرکے کا ایک قابل تحسین معرکہ ایم ایم عالم کا ہے۔ انہوں نے سرگودھا کے قریب ایک ہی جھڑپ میں دشمن کے پانچ طیارے گرا کر ریکارڈ قائم کر دیا۔ اس کے بعد بھارتی فضائیہ کو سرگودھا کی جانب جانے کی جرات نہیں ہوئی۔
انبالہ کے دفاعی انتظامات کی بڑی کہانیاں مشہور تھیں۔ یہی خطرات پاکستانی ہوابازوں کے لئے چیلنج بنے ہوئے تھے۔ 21ستمبر کو سحر سے ذراپہلے ونگ کمانڈر نذیر لطیف اور اسکواڈرن لیڈر نجیب احمد خان دو بی 57 بمبار طیارے لے کر آسمان کی وسعتوں میں نمودار ہوئے۔ انہوں نے دشمن کے ہوائی اڈے کو بموں کا نشانہ بنایا۔ دشمن نے بے پناہ گولہ باری کی مگر دونوں جوانوں نے کمال حوصلے اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مشن پورا کر دیا۔ انبالہ کے دفاعی انتظامات کا غرور آن واحد میں خاک میں مل گیا۔
سترہ روز جنگ کے دوران پاکستان کے جرات مند ہوابازوں نے35طیاروں کو دو بدو مقابلے میں اور 43 کو زمین پر ہی تباہ کر دیا تھا۔ 32 طیاروں کو طیارہ شکن توپوں نے مار گرایا۔ بھارت کے مجموعی طور پر 110 طیارے تباہ کر دیئے گئے۔ اس کے علاوہ ہماری فضائیہ نے دشمن کے 149ٹینک’ 200 بڑی گاڑیاں اور20 بڑی توپیں تباہ کر دیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے صرف 19 طیارے تباہ ہوئے۔ پاک فضائیہ کے ان عظیم کارناموں پر عالمی حلقوں کی طرف سے حیرت و استعجاب کا اظہار کیا گیا۔ جنگ ستمبر میں پاک بحریہ کو سمندری جنگ کے معرکوں میں جو برتری حاصل رہی ان میں معرکہ دوارکا قابل ذکر ہے۔ یہ معرکہ پاک بحریہ کی تاریخ میں یادگار حصہ بن چکا ہے۔ دوارکا کی تباہی کا بیرونی اخبارات میں بڑا چرچا ہوا۔ برطانوی اخبارات نے تو خاص طور پر کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھارت کی سرزمین پر سمندر کی جانب سے پہلی گولہ باری ہوئی ہے۔ انہوں پاک بحریہ کی جرات اور مستعدی کی تعریف کی۔ خاص طور سے اس لیے کہ مخالف طاقت اس سے کہیں زیادہ بڑی تھی۔1965ء میں صرف اس کارروائی نے دشمن پر یہ ظاہر کر دیا کہ سمندروں میں اس کو من مانی نہیں کرنے دی جائے گی۔ یہ کارنامہ دراصل ان لوگوں کے لیے بھی قابل فخر ہے جو پاکستان نیوی کے جہازوں کو سنبھالے ہوئے تھے اور ان میں ان لوگوں کا بھی حصہ تھا جو ساحل پر بیٹھے ان جہازوں کو سمندروں میں خدمات بجا رکھنے کے قابل رکھنے کے کاموں میں مصروف تھے۔
پاکستان کی تینوں مسلح افواج ہر محاذ پر برسرپیکار تھیں۔ ان افواج کو حوصلہ اور تقویت عطا کرنے میں پاکستان کی غیور عوام کا بھی نہایت اہم کردار تھا۔ وہ اپنی مسلح افواج پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار تھے۔ جب فوجیں سرحد کی طرف جاتیں تو بوڑھے مرد اور عورتیں سڑک کے کنارے ان کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگتے’ ان کی مدد کے طریقے پوچھتے اوربچے جذبہ عقیدت سے سلوٹ کرتے۔ بہنیں اللہ سے ان کی حفاظت کے لئے دعائیں مانگتیں۔ شاعر ملی ترانے لکھ کر اپنے جذبوں کا اظہار کررہے تھے تو گلوکاروں کی صدا دعا بن کر فضا میں شامل ہورہی تھی۔ غرضیکہ پورا ملک جنگ میں شامل تھا مگر کسی قسم کا خوف نہ تھا۔پاکستانی عوام فضا میں پاک فضائیہ کے شاہینوں کی کاروائیوں کو ایسے دیکھتے تھے جیسے پتنگ بازی کا مقابلہ ہو اور دشمن کے طیاروں کے گرتے ہی بوکاٹا کا شور مچتا۔ الغرض اس جنگ میں ہماری قوم نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ آزمائش کی ہر گھڑی میں پاک فوج کے شانہ بشانہ ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ پاکستان کی تینوں افواج کا دفاع اور عوام کے ایثار و قربانی کے مظاہرے ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔