تحریر : رائو عمران سلیمان برما میں ہونے والے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے بدترین واقعات کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہوسکتے ،گزشتہ تیس چالیس سالوں سے بدھ مت کے دہشت گردوں کی جانب سے یہ انسانیت سوز مظالم کبھی کم تو کبھی زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں مگرپچھلے تین چار سالوں سے برماکے روہنگیا مسلمانوں پر تشدد اور سفاکیت کا عمل بہت تیز ہوگیاہے ،ان مسلمانوں پر برما کے نہ صرف حکومتی ادارے اور وہاں کی پولیس زیادتیاں کرتی ہیں بلکہ بدھ مت کے کچھ انتہاپسندگروپوں نے بھی ان کی زندگیوں اجیرن بنا کر رکھا ہوا ہے ، جن ممالک میں بدھو ئوںکی نسلیں آباد ہیں وہاں درس زیادہ تر انسانی ہمدریوں اور بھائی چارے کا ہی دیا جاتا ہے اور یہ نسلیں اپنے ہر قول وفعل سے یہ ہی ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے ہاتھوں سے اس دھرتی کی کسی بھی جاندار شے کو نقصان نہ پہنچے یعنی یہ لوگ جانوروں پر بھی رحم کرتے ہیں مگر یہ مسلمانوں کے دین اور مذہب سے نفرت کا نتیجہ ہے کہ اس بدھ مت میں ہی کچھ ایسے گروپس پیدا ہوگئے ہیں کہ جو مسلمانوں سے نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کسی بھی قسم کے تشدد سے گریز نہیں کررہے ہیں۔
حالیہ ایک ڈیڈھ سال میں 60ہزار کے قریب روہنگیا مسلمان اس تشدد سے بچنے کے لیے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہیں اس کے علاوہ ہزاروں روہنگیا مسلمان کشتیوں کے ذریعے ملائیشیا سمیت دیگر ممالک میں پناہوں کی تلاش میں دربدر ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی سو روہنگیامسلمان ،جن میں معصوم اورنومولود بچے ،خواتین اور بزرگ سمندر میں ہی غرق ہوچکے ہیں یہاں ایک ایسا کشتی مافیا بھی موجود ہے جو ان مسلمانوں کو خطے سے نکالنے کے لیے ان سے پیسے بٹورتاہے اور انہیں دوسرے ملکوں میں بھجوانا کا کہہ کر انہیں کھلے سمندر میں جھونک دیتاہے جس کے باعث ان معصوم اور مظلوم مسلمانوں کی لاشوں سے سمندر کے کنارے اٹے پڑے ہیں ۔ برما کی تقریبا ً پانچ کروڑ کی آباد میں صرف آٹھ سے دس لاکھ ہی روہنگیا مسلمانوں رہائش پزیر ہیں۔
جبکہ ان مسلمانوں کی اکثریت کئی گناہ زیادہ ہے مگر برمی حکومت ان کی تعداد کو زیادہ بتانے سے گریز ہی کرتی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ جو ممالک اس مسئلے کومسلم ممالک کامسئلہ قرار دیتے ہیں وہ سرار غلط ہے کیونکہ یہ مسئلہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس طرح کے بدترین واقعات کسی بھی مذہب کے انسانوں کے ساتھ ہوسکتے ہیں یہ سب باتیں جہاں میانمار کی حکومت کو سوچنا ہوگی وہاں عالم اسلام کی تمام قوتوں یعنی 39ممالک کے اسلامی اتحاد سمیت دیگر ملکوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ بربریت کے یہ انوکھے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہے یہاں پر حالیہ دنوں میںروہنگیا مسلمانوں کے 600 قریب گھروں اور جھونپڑ یوں کو آگ لگا کر ان مسلمانوں کو زندہ جلادیا گیا ،جو بچ گے ان کے جسموں کو کاٹ کرپھینک دیا گیا جن کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے اتنا سب کچھ ہوگیا مگر افسوس انسانی ہمدریوں کی سب سے بڑی عدالت اقوام متحدہ نے بھی اس معاملے پر کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے جبکہ عرب لیگ یعنی او آئی سی تو کسی بھی مصرف کی دوا نہیں ہے انہوں نے کبھی بھی زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
اب جب کہ ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان کو ہر صورت میں اس مسئلے پر سفارتی سطح پر اپنی آواز کو بلند کرنا ہوگا اور اس آواز کو پاکستان کی حکومت نے ہمیشہ نہ ہونے کے برابر ہی اٹھائی ہے ،جبکہ ترکی کے عظیم سربراہ طیب رجب اردگان نے بنگلہ دیش کی حکومت کو یہ باور کروایا ہے کہ وہ برما سے آنے والے مسلمانوں کا راستہ بند نہ کرے بلکہ انہیں بنگلہ دیش آنے دے اور یہ کہ ترکی کی حکومت ان تمام روہنگیا مسلمانوں کا خرچہ بنگلہ دیش کو دینے کے لیے تیار ہے جبکہ ہمیں اس وقت یہ ہی آواز پاکستان کی حکومت سے بھی سننے کو مل جائے تو یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا کہ پاکستان کی حکومت بھی ان روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے ۔ اس وقت ایک اور بہت بڑی قوت اس مسئلے میں اپنا بہت بڑا کردار ادا کرسکتی ہے اور وہ ہے چین کیونکہ چین بھی مہاتما بدھ کے پیروکار کا ملک ہے اور چین کی حکومت اور عوام پاکستان کے ساتھ بہت لگائو رکھتے ہیں۔
پاکستان چین کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ حکومتی سطح پر برما کی صدر آنگ سان سوچی سے حکومتی سطح اور بدھ مت کے دہشت گردوں کو مذہبی سطح سے سمجھانے کی کوشش کرے کہ وہ ان روہنگیا مسلمانوں کی آبرو ریزی اور قتل وغارت گری کو بند کردے ۔1960کی دہائی میں روہنگیا مسلمان ان سفاک دہشت گردوں سے اپنی جانوں کو بچانے کے لیے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں آجایا کرتے تھے جنھیں حکومت پاکستان اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر پناہ دیتی تھی اس بار بھی پاکستان کو چاہیے کہ وہ تمام مسلم ممالک کے اتحاد کو اس سلسلے میں اعتماد میں لیکر ان مظالم کی کی روک تھام کے لیے آواز اٹھائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنی افواج پاکستان سے کوئی گلہ نہیں کرسکتے کیونکہ ہماری فوج اس انداز میں کسی بھی طریقے سے ان ملکوں میں نہیں جاسکتی ،مطلب صاف ظاہر ہے کہ انڈیا کی فوج پاکستان میں کیسے آسکتی ہے ؟ ایک طریقہ کار یونائیٹڈ نیشن کاامن مشن ہے یعنی اقوام متحدہ اپنا امن مشن برما میں بھیجے جس میں تمام اسلامی ممالک کی فوجیں اس امن مشن کے دستے میں شامل ہو کیونکہ کسی اور ملک کی فوج بدھ مت کے ان دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے یو این کے تحت ہی جاسکتی ہیں خود کارعمل سے نہیں ۔میں معصوم بچوں اور خواتین کی نیم برہنہ لاشوں کی تصاویر اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں جنھیں دیکھنے کی ہمت میرے خیال میں کسی بھی بال بچے دار یا صاحب اولاد آدمی میں نہیں ہوسکتی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کو کیا ہوگیا ہے ؟ یہ سب سوچتے ہوئے کہ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی یہ دنیا خود بھی اب دہشت گردی سمیت متعدد مسائل کا شکار ہے پوری دنیا اب خود بھی بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے اس وقت دنیا کسی کے لیے آواز کیوںاٹھائے؟ اسے تو خود ہی اپنی فکر لاحق ہے ، اور اس پر جہاں غیر مذاہب کے لوگ ہمارے دین کو اچھا نہیں سمجھتے وہاں پوری دنیا میں کچھ بھارتی حکمرانوں کی سوچ رکھنے والے انتہا پسند لوگ دنیا بھر کے مسلمانوں کو دہشت گردقرار دینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کفر مسلسل اتحاد پر اتحاد بنارہاہے اور اپنی ناجائز دولت کو مسلم ممالک کے سربراہوں میں بانٹ کر انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنارہاہے اس وقت مسلمانوں کو بکھیر دیا گیاہے ان کو لالچ ،بھوک اور پیسہ بنانے کے پیچھے لگاکر بے حس بنایا جارہاہے مگر یہ بے دین لوگ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے ہرایک عمل سے اپنے ساتھ پوری دنیا کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔