تحریر: نبیلہ خان دارالامان: لغوی معنی امن کی جگہ۔اصطلاح کے اعتبار سے ایسی جگہ جہاں آپ امان پاسکیں یا امان میں رہ سکیں۔دارلامان لفظ بظاہر اپنے اندر بہت سی خوبصورتیاں اور سکون کی علامتیں رکھتا ہے۔مگر کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ یہ سوال میرے ذہن میں ایک واقعہ کی بدولت ابھرا۔جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں دارالامان ایسی خواتین کے لئے بنایا گیاہے جو زمانے کے ظلم وستم کا نشانہ بنتی ہیں۔محکمہ فلاح وبہبود کی زیر نگرانی بنے ۔دارارمان مظلوم اور بے بس خواتین کی داد رسی کے لئے قائم کیاگیا ایک بہت ہی اچھا اقدام ہے۔جہاں بے گھر اور بے در خواتین کو سر چھپانے کی جگہ میسر آتی ہے۔ حکومت پاکستان کی زیر نگرانی اس شلٹر ہاؤس میں کیا مجبور وبے کس خواتین واقعی مظالم سے بچ جاتی ہیں؟ زمانے کی ستم ظریفی کا شکار ان خواتین سے کبھی کسی نے پوچھا کہ آپ امن کی اس جگہ میں کتنی پرامن ہیں؟ کتنی پرسکون ہیں۔
اس موضوع پر قلم اٹھانے کا مقصد حکومت پر یا محکمہ فلاح وبہبود پر طنز یاتنقید کرنا نہیں ہے بلکہ حکومت کی اس بے حسی کی طرف عوام کی توجہ دلانی ہے جس کا شکار ہمارا ہر فرد ہے۔ آئیے شازیہ کی زبانی دارالامان کی حقیقی تصویر جو اس نے ملاحظہ کی آپ لوگوں کو بھی دکھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔لاہور جیسے بگ سٹی میں آئے دن خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔شوہر نامی مخلوق خواتین کا استحصال ہردور اور زمانے میں کرتے رہے ہیں۔ چاہے عورت کتنی ہی پڑھی لکھی اور مضبوط کردار کی مالک کیوں نہ ہو۔ مرد کے اس معاشرے میں مرد اپنی جھوٹی انا کی خاطر زود کوب کرنا’ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا’اپنا ایک عظیم کارنامہ سمجھتے ہوئے لوگوں کے سامنے فخریہ طور پر پیش کرنا اپنی بہادری سمجھتا ہے۔ شازیہ کے ساتھ پچھلے دو سالوں سے اس کے شوہر نامدار نے ناروا سلوک کی ہر حد کراس کی ہوئی تھی۔مار پیٹ گالی گلوچ کردار کشی کرنا’بہتان تراشی کرنا جو وہ کرسکتا تھا اور ان سب کے پیچھے ایک مضبوط وجہ شوہر کا نشہ کرنا تھا۔جس کی بدولت گھر اور بچوں کی نفسیات دونوں پر بہت برا اثر پڑرہا تھا۔
قصہ مختصر شازیہ نے بحالت مجبوری اور اپنی جان بچانے کے لئے دارالامان میں پناہ لینے کا سوچا۔بڑی مشکل سے جان بچاتی ہوئی دارالامان کے دروازے پر پہنچی تو آگے سے دروازے پر کھڑے سیکورٹی گارڈ نے اندر جانے سے روک دیا اور کہا گیا کہ عدالت کی طرف سے اجازت نامہ لائے تب اندر تک رسائی ممکن ہوگی۔گرمی دھوپ اور اپنے جسم پر پڑے نیلوں کی تکلیف برداشت کرتے ہوئے اس نے چوکیدار کی منتیں کیں کہ ایک بار انتظامیہ سے ملایا جائے مگر چوکیدار کے سینے میں دل نہیں پتھر تھا جو انسانی ہمدردی سے یکسر خالی تھا۔شازیہ کے ساتھ ہی ایک خاتون اوربھی دارالامان کی چوکھٹ پر سوالی بن کے کھڑی تھی جو اندر اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے منتیں ترلے کررہی تھی مگر اسے بھی ٹکا سا جواب دیا گیا کہ عدالت سے پہلے اجازت نامہ لاؤ تب ملنے دیا جائے گا۔
وہ غریب بوڑھی لاچار عورت تین دن سے دارالامان کے پھیرے مار رہی تھی مگر کوئی شنوائی نہیں تھی۔شازیہ کو اس عورت کی زبانی معلوم ہوا کہ دارالاامان نام نہاد امن کی جگہ ہے۔یہاں پر خواتین سے بیگار لی جاتی ہے۔دارالامان کی اندرونی زندگی کسی جیل سے زیادہ مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے جہاں ان سے مشقت کا کام لیا جاتا ہے۔کھانے کو بھی کوئی ایسی مناسب خوراک کا بھی انتظام نہیں ہے اور تو اور ایسی خواتین کو آزاد فضا میں سانس لینے کی بھی اجازت نہیں۔ناتو وہ باہر کہیں آجا سکتی ہیں نہ ہی اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتی ہیں۔
آخری اور سب سے اہم بات جو میں حکومت وقت سے پوچھنا چاہتی ہوں۔لاہور جیسے بڑے شہر میں سرکاری سطح پر ایک ہی دارالامان ہے جس میں صرف 50 خواتین کے لئے شلٹر مہیا کیاجاتا ہے اور وہ بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے۔ ایک عورت جسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوں’زمانے کے ظلم وستم کاشکار ہو اور جس نے کبھی اپنے گھر کی چاردیواری کے باہر دنیا کو دیکھا ہی نہ ہو۔کیا وہ آپ کے قانونی مسائل کو حل کرنے کی سکت رکھتی ہے۔ دارالامان جیسے بھونڈے مذاق کی ضرورت کو پورا کرنا اگر ایک بے بس اور اکیلی لاچار عورت کے بس کی بات ہوتی تو کیاآج ہمارا معاشرہ جو مرد کامعاشرہ ہے۔
ایسے معاشرے میں پھر کسی دارالامان کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔خواتین کے لئے قوانین اور بل تو پاس کئے جاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد کرنے والے مرد حضرات درحقیقت اس کے سب سے بڑے مخالف خود ہی ہوتے ہیں۔عورتوں کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والے حضرات اگر تھوڑا سا اپنے مذہب کا مطالعہ اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو آج ہمارا معاشرہ بھی مکمل نہیں تو کچھ نا کچھ ضرور سدھر جائے۔