تحریر: محمد عبداللہ مسلمانوں کی خوشی کے دو تہوار ہوتے ہیں جن میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ ہے۔ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان ان دو تہواروں کو پورے جوش واور ولولے سے مناتے ہیں۔ ابھی عید الاضحیٰ کی آمد آمد تھی اور چونکہ یہ حج اور قربانی کی عید ہوتی ہے تو لوگوں میں قربانی کے جانور خریدنے اور ان کی دیکھ بھال کے حوالے سے جوش و خروش بڑھنا شروع ہوگیا تھا کہ عالمی میڈیا سے خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ جب پوری قوم سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہونے کے لیے جانوروں کی قربانی کا اہتمام کر رہی ہے تو عین ایسے ہی وقت میں ایک خطے میں بسنے والے مسلمان ایسے بھی ہیں جو جانوروں کی قربانی کی بجائے اپنی اور اپنے بچوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔
جی ہاں یہ حرماں نصیب مسلمان میانمار کے رہنے والے مسلمان ہیں جن پر اپنے ہی ملک کی زمین تنگ کردی گئی ہے اور ان صحیح معنوں میں قتل عام کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ایک سو کلومیٹر کے علاقے میں بسنے والے مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا گیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر قتل کیے جانے مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور باقی ماندہ کو زبردستی علاقہ بدر کیا جارہا ہے اور اس کے لیے سینکڑوں بستیوں آگ لگا کر ان کے گھروں اور املاک کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔ یہ قتل عام حکومتی سرپرستی میں اور سرکاری افواج کی زیر نگرانی ہو رہا ہے اور قتل کرنے والے اس مذہب کے ماننے والے کے جس میں کسی جانور اور کیڑے مکوڑے کو مارنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مہاتما بدھ کہ جن کو امن کا پیامبر اور عدم تشدد فلسفے کا ایک بہت بڑا داعی سمجھا جاتا ہے ان کے پیروکار جو آگے چل کر بدھ مت کہلائے وہی آج مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ میانمار میں مسلمانوں کا قتل عام کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا بلکہ ماضی میں اس بدنصیب قوم کو بہت وسیع پیمانے پرقتل کیا جاتا رہا ہے۔
ابھی حالیہ قتل عام بدھ مت کے ایک بہت بڑے لیڈر ویراتھو کے ملک گیر دوروں اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں کے بعد شروع ہوا اور ہزاروں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا ہے۔ اس ویراتھو کو امریکی ہفت روزہ ٹائم میگزین نے اپنے سرورق بدھ مت کا دہشت گرد چہرہ قرار دیا ہے۔ میانمار میں جن مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے ان کو روہنگیائی مسلمان بھی کہتے ہیں۔ روہنگیا اصل میں ایک خاندان کا نام ہے جن میں بہت بڑا حصہ مسلمان ہے اور ایک قلیل تعداد ہندوؤں کی بھی ہے۔ یہ لوگ میانمار، بنگلہ دیش اور بھارت کے کچھ علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ میانمار میں یہ لوگ راخائین جس کو اراکان بھی کہتے ہیں اس میں بستے ہیں۔یہ لوگ صدیوں سے ان علاقوں میں رہتے چلے آرہے ہیں مگر بدنصیبی کی بات ہے کہ کوئی بھی حکومت ان کو اپنے ملک کا باسی ماننے کو تیار نہیں ہوتی۔ خود میانمار میں اراکان کے علاقے میں بھی ان کی کیفیت یہ ہے کہ یہ بے چارے کوئی جائداد یا املاک نہیں بنا سکتے نہ اس کی خرید و فروخت کرسکتے ہیں اور نقل و حمل کے لیے ان کو اسپیشل پرمٹ بنوانا پڑتا ہے۔ میانمار کی حکومت بھی ان کو اپنے ملک کا شہری ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس کی وجوہات میں بہت ساری باتین بیان کی جاتی ہیں اور حقائق کو جھٹلایا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ علاقہ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہے اور اگر حکومت ان روہنگیائی مسلمانوں کو اس میانمار کا باقاعدہ شہری تسلیم کرلیتی ہے تو پھر اس تیل اور گیس کی رائلٹی بھی دینی پرتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ چین اور بھارت کے سنگم پر بھی واقع ہے اور چائنہ کو پوری دنیا میں اپنے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کو پھیلانا چاہتا ہے اور یہ علاقہ بھی اس منصوبے میں آتا ہے تو کچھ سامراجی طاقتیں امریکہ و برطانیہ جو چائنہ کی اس بڑھتی ہوئی ترقی اور اس کے اثر رسوخ سے خائف ہیں وہ چاہتے ہیں کہ وہ کہ اس علاقے کو جنگ زدہ قرار دے کر کسی طریقے سے اقوام متحدہ کی امن فوج کے ذریعے داخل ہوکر چائنہ کی اقتصادی ترقی اور اس کے اثر و رسوخ کو روکا جاسکے اس کے لیے اقوام متحدہ کی معائنہ کرنے والی ٹیمیں میانمار میں بھیجی جا رہی ہیں، اس گریٹ گیم میں جوبلاوجہ پس رہے ہیں اور ان کا قتل عام ہو رہا ہے وہ مسلمان ہیں اور اس قوم کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ پہلے بھی فسادات میں ان کو قتل کیا جاتا رہا ہے اور یہ لوگ کشتیوں کے ذریعے ہجرت کرکے بنگلہ دیش، ملائشیا ، انڈونیشیا اور پاکستان تک پناہ لے چکے حالیہ فسادات اور ان کے نتیجے میں ہونے والے قتل عام میں بھی یہ لوگ ہجرتوں پر مجبور ہوئے ہیں۔ ایک تاثر جو سوشل میڈیا پر دیا جارہا کہ کوئی برما کے مظلوم مسلمانوں کی آواز اٹھانے والا نہیں ہے وہ بھی ایک جھوٹ کا پلندہ ہی ہے۔ ترکی نے بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیائی مسلمانوں کے سارے خرچے کا ذمہ لینے کی بات کی ہے، پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی اس پر اچھے انداز میں بات کی ہے اورمیانمار کی حکومت سے قتل عام روکنے اور ان فسادات کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک بڑی ہی خوش آئند بات یہ کہ پاکستان کی ایک فلاحی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے سب سے آگے بڑھتے ہوئے عملی طور پر ان کی مدد کرتے ہوئے میانمار کے متاثرہ علاقوں میں عید قربان کے موقع پر جانور قربان کرکے ان مظلوم مسلمانوں میں قربانی کا گوشت تقسیم کرکے ان کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کیا ہے۔ اس سے قبل یہی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن انڈونیشیا کے صوبہ آچے میں مہاجر روہنگیائی مسلمانون کو گھر بھی تعمیر کرکے دے چکی ہے۔ اس سارے مسئلہ کے حل اور مسلمانوں کا قتل عام روکنے کے کیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سفارتی طور طریقے اختیار کرکے روس اور چین کے ذریعے میانمار کی موجودہ حکومت پر پریشر ڈلوا کر مسلمانوں کے مسائل کو حل کروایا جائے اور ان کا قتل عام رکوایا جائے۔