ویانا (محمد اکرم باجوہ) ویانا، آسٹریا کی مشہور سیاسی اور سماجی شحصیت جناب ایم ایم ڈی منصوری کشمیر کلچر سینٹر کے نئی گورننگ باڈی کے ہونے والے انتخابات میں نائب صدر کے انتحاب میں بھاری اکثریت سے منتحب ہو گے۔ دیگر نومنتحب عہدیداران میں چوہدری عبدالرشید صدر، محمد نعیم خان جنرل سیکرٹری اور لطیف بٹ فنانس سیکرٹری منتحب ہوۓ۔ نومنتحب عہدیداران نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے جدوجہد میں تیزی لائ جاۓ گی اور گزشتہ 69 سالوں سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں حق خود رادی کے حصول کے لئے، سیاسی، سفارتی اور سماجی حلقوں میں نہ صرف روشناس کرایا جاے گا، بلکہ ان حلقوں سے مسئلہ کے پرامن حل کی بھرپور کوشش اور وکالت بھی کی جاۓ گی۔ یاد رہے کہ 21 اپریل 2017 کو یورپین پارلیمنٹ ہاوس ویانا میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے دوران آسٹرین ممبران پارلیمنٹ اور 2 حکومتی پارٹیوں کی فارن پالیسی کے نمائیندگان نے مسئلہ کے پرامن حل کے لئے اپنی بھرپور تعاون کا نہ صرف یقین دلایا تھا، بلکہ کشمیر کے تمام علاقوں کا دورہ اور وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی اور سیاسی حقوق کی بحالی کے جائزے کے لئے بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں جناب ایم ایم ڈی منصوری نے ای یو پاکستان فرینڈشپ فیڈریشن سے اپنے استعفیٰ اور کشمیر کلچر سینٹر میں شمولیت کے حوالے سے کہا کہ میں نے ای یو پاکستان فرینڈشپ فیڈریشن میں شمولیت اس لۓ ختیار کی تھی کیونکہ مجھے یقین دلایا گیا تھا کہ یہ ایک سماجی تنظیم ہے اور یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے حقوق کے تحفظ اور یورپی حکام کے ساتھ تعاون اور یکجہتی کو فروغ دینا ہی اس کا بنیادی مقصد ہے۔ آسٹریا میں تنظیم کے قیام کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے۔ کوئی سیاسی، سماجی، فلاحی یا معاشی کار کردگی تو ایک طرف، تنظیم کی جنرل باڈی کا ایک بھی اجلاس نہیں بلایا گیا۔ بادی النظر میں آسٹریا میں تنظیم کے قیام کا ایک ہی مقصد ذاتی نمود و نمایش ہی نظر آتا ہے۔ لہذا ان حالات میں اس تنظیم میں رہنا محض وقت کا زیاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کلچر سینٹر ایک متحرک اور فعال تنظیم ہے اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے نہ صرف یونائیٹڈ نیشن بلکہ سیاسی اور سماجی محاذ پر بھی سرگرم ہے۔ کلچر سینٹر کے عہدیداران نہ صرف مختلف سیاسی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں سے رابطے میں رہتے ہیں، بلکہ آسٹرین حکام اور نیشنل پارلیمنٹ کے ممبران کو بھی مسئلے کے تاریخی حقائق اور کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں مہینے میں کم از کم ایک بار گورننگ باڈی کا اجلاس بھی ہوتا ہے، جس میں ممبران کو ہونے والی کارکردگی سے آگاہ بھی کیا جاتا ہے، ان کے راۓاور تجاویز بھی لی جاتی ہیں اور آیندہ کے لئے لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے ۔ اس تنظیم میں ذاتی یا تنظیمی تشہیر کی بجاے بامقصد کام، نیشنل کاز اورمثبت نتائج حاصل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔ انہی حقائق کی بنا پر میں نے کمشیر کلچر سینٹر میں شمولیت بھی اختیار کی اور گورننگ باڈی کا الیکشن بھی لڑا۔ میں کشمیر کلچر سینٹر کی مجلسِ عاملہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اپنے بھر پور اعتماد سے نوازا۔