تحریر : شاہ بانو میر کلاس روم شاگردوں سے بھرا ہوا تھا اتنے میں پروفیر کلاس میں داخل ہوئے اور شیشے کی ایک برنی نکالی اور کہا کہ آج آپ سب کو زندگی کا اہم سبق سکھانے والا ہوں٬ پروفیسر صاحب جیب سے ٹینس بالز نکال کر اس شیشے کی برنی میں ڈالنے لگےجب برنی بھر گئی تو شاگردوں سے پوچھا کیا یہ بھر گئی ہے۔
جی ہاں جواب ایک وقت میں آیا ٬ اب جیب سے انہوں نے باریک پتھر نکالے اور اس میں بھرنے لگے جب وہ بھر دیے تو پھر تو شاگردوں سے پوچھا کیا برنی بھر گئی ہے؟ شاگردوں نے پھر کہا جی ہاں اب باریک ریت کی تھیلی نکالی اور آہستہ آہستہ برنی میں ڈالنے لگے جب برنی بھر گئی تو پوچھا کہ اب کیا بھر گئی۔
جی ہاں کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ جواب ملا پھرپروفیسر صاحب نے جیب سے چاکلیٹ ملک کا ڈبہ نکالا اور اس میں انڈیلنے لگے آہستہ آہستہ ریت چاکلیٹ ملک کو جذب کرتے ہوئے اوپر آنے لگی جب بالکل جگہ نہ رہی تو پروفیسر صاحب نے گھمبیر آواز میں شاگردوں سے مخاطب ہوتےہوئے کہا اس کانچ کی برنی کو دیکھو کیا یہ بھر گئی ہے٬ جی ہاں اب کے آواز میں تحیر بھی تھا دیکھو پروفیسر گویا ہوئے یہ”” ٹینس بال”” جو برنی میں پہلے ڈالے تھے دراصل طرز معاشرت٬ حصول معاش٬ خاندان٬ ماں باپ٬ بچے٬ قریبی رشتے دار دوست احباب ہماری زندگی کے اہم ترین نقاط ہیں۔
کنکر اصل میں گاڑی ٬ بنگلہ٬ موبائل٬ کمپیوٹر٬ دیگر اصراف زندگی ہیں ٬ “”ریت”” چھوٹی فضول باتیں وقت کا ضیاع وغیرہ اگر کانچ کی برنی میں سب سے پہلے ریت بھری ہوتی تو گیند نہیں بھر پاتے اگر پتھر بھرتے تو بھی گیندیں داخل نہیں ہو سکتی تھیں٬ اگر تم لا یعنی چیزوں کے لئے زندگی میں بھاگتے دوڑتےرہو گے تو کبھی کامیابی نہیں ملے گی٬ اب خود سوچو کہ زندگی کی ترتیب کو اس برنی کیسے بھرنا ہے ؟ شاگرد نے پوچھا کہ چاکلیٹ ملک کا آپ نے نہیں بتایا کہ وہ کیا ہے میں بھی سوچ رہا تھا کہ کسی نے اس کے بارے میں اب تک سوال کیوں نہیں کیا٬ اسکا مطلب ہے کہ زندگی میں کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں اپنے دوستوں٬ رشتے داروں٬ کے ساتھ تعلق کی مٹھاس ضرور رکھیں۔
مصروفیت میں سے وقت نکال کر اپنے ساتھ رہنے والوں کواپنے ہونے کا احساس ہمیشہ دلائیں انہیں وقت ضرور دیں٬ ورنہ ہم چیزیں پالیں گے مگرانسان اور رشتے٬ تعلقات٬ دوست کھو دیں گے ٬ اللہ پاک ہماری اس میں مدد فرمائے اور ہم بہترین انداز میں زندگی کو سمجھ کر گزاریں٬ اس چھوٹی سی کہانی میں بہت کچھ ہے سیکھنے کو۔