٧ ستمبر کمال کا دن قادیانیوں کے زوال کا دن

Qadianiat

Qadianiat

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
آج سات ستمبر ہے یوم فضائیہ تو ہے ہی آج ایک اور یادگار دن بھی ہے اور کمال کا دن بھی۔کہ آج کے دن قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔سلام ان عظیم لوگوں پر جنہوں نے اسلم کے ماتھے پر ایک سیاہ دھبے کو صاف کیا۔ہم کب کہتے ہیں کہ قادیانی واجب القتل ہیں یا انہیں جینے کا کوئی حق نہیں ۔سو بار جئیں اور رہیں اس پاکستان میں جہاں پہلے ہی سے ہندو سکھ،پارسی ،عیسائی اور کئی مذاہب کے لوگ ہنسی خوشی جی رہے ہیں۔میں اس تحریک کا حصہ تھا۔طلباء کے علم کی خاطر بتاتا چلوں یوں تو اس سے پہلے یہ جدوجہد ایک عرصے سے جاری تھی۔اس وقت سے جب پنجاب کے ایک گائوں قادیاں سے تعلق رکھنے والے غلام احمد قادیانی نے جھوٹی نبوت کا دعوی کیا تھا۔جھوٹے لوگ کبھی امام،کبھی مصلح کا نام لے کر سامنے آتے ہیں اسی غلام احمد قادیانی نے جہاد کے خلاف حکومت انگلیزیہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ہوا کچھ یوں کہ نشتر میڈیکل کالج کے چند طلباء سیر کے لئے پنجاب کے دورے پر نکلے ان کی قیادت ارباب عالم نامی نوجوان کر رہے تھے ان دنوں جمیعت کا طوطی بولا کرتا تھا۔یہ ٹرین جب ربوہ اسٹیشن پر رکی تو طلباء نے تاج و تخت ختم نبوت کے نعرے لگائے۔اس وقت تو قادیانیوں نے انہیں کچھ نہیں کہا مگر واپسی پر ریلوے کے عملے کی ملی بھگت سے ان طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی نوائے وقت نے اس لڑائی میں سرخیل کا کردار ادا کیا۔

مجید نظامی کے اس اخبار نے کمال کا کام کیا اور اس تحریک جس کی آگ پہلے سے ہی موجود تھی اسے مزید بڑھکایا اور پورے پنجاب میں پھیل گئی۔میں ان دنوں گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کا طالب علم تھا کالج یونین کا نائب صدر اور اسلامی جمیعت طلبہ کا ناظم تھا۔میں نے بھی بساط بھر اس تحریک میں حصہ لیا۔میں چاہتا ہوں کہ ہماری نئی نسل جان لے کے یہ قادیانی جو در اصل یہودیت کی ایک شاخ ہے۔مرزا غلام احمد قادیانی ایک ایسا شر پسند بندہ تھا کہ اس نے انگریزوں کی مدد کے لئے جہاد کے عنصر کے خاتمے کے لئے یہ ساری کوشش کی۔انگریز جہادی عناصر سے بڑے پریشان تھے انہوں نے دیکھا کہ مسلمان ١٨٥٧ کی جنگ آزادی میں اللہ اکبر کا نام لے کر اپنے سینوں پر گولی کھاتے تھے۔سو اس نے ایسے بندے تلاش کئے جو ضہاد کو موقوف قرار دیں اور کہیں کہ جہاد حرام ہو چکا ہے اور اور اولی الامر کی اطاعت کا درس موجود ہے۔وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا اور بڑے بڑے ذہین و فطین لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کی دعوت کو قبول کر بیٹھے۔پہلے پہل اقبال بھی اس کی دعوت سے متآثر نظر آئے مگر جب گرہیں کھلیں تو قادیانیت کے خلاف پہلی صفوں کے مجاہد بن گئے۔

١٩٧٤ میں جب آگ کے شعلے پورے پاکستان میں پھیلے تو اس میں لاہور اور گجرانوالہ بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔ہماری رہائیش باغبانپورے کی چودھری برخوردار والی گلی میں تھی جو میرے والد صاحب تھے۔یہاں میں یہ بات لکھ رہا ہوں کہ اس جد وجہد میں علمائے دیو بند کا کردار پہلی صفوں کے مجاہدوں والا تھا۔ہمیں جمیعت کی طرف سے یہ دبے لفظوں میں پیغام تھا کہ آرام سے۔قومی سطح پر علامہ شاہ احمد نورانی ،رفیق احمد باجوہ(جو قومی اتحاد کے سیکریٹری جنرل بھی رہے اور بھٹو سے خفیہ ملاقات کے انکشاف کے بعد زیرہ ہو گئے) مولانا مودودی،مفتی محمود اور دیگر لوگ اپنے ناموں کو اپنی عظیم کوششوں کی وجہ سے سنہرے الفاظ میں لکھوا چکے ہیں۔لیکن میں اپنے شہر کی بات کرتا ہوں۔ہم لوگوں نے مولانا زاہد الراشدی(اللہ عمر دراز کرے) عبدالطیف چشتی اور دیگر علماء کی زیر قیادت جد وجہد شروع کی۔مساجد میں تقاریر میں فضائل ختم نبوت بیان کئے جاتے اور پھر لوگ سڑکوں پر تاج و تخت ختم نبوت کے نعرے لگاتے۔

اس دوران قادیانیوں کی لائیبریری اور بیت الذکر پر بھی حملے ہوئے کئی ایک جانیں بھی ضائیع ہوئیں۔ملک بھر میں ایک آگ سی لگ گئی تھی۔ایک سہ پہر کو میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ جناح روڈ چوک(حالیہ) پہلے یہ راجباہ کا پل ہوا کرتا تھا اور اس پورے روڈ پر ایک راجباہ تھا جو بعد میں شہر بھر کی گندگی کی آماجگاہ بن چکا تھا۔اب اس پر شاندار جناح روڈ موجود ہے اور چوک بھی خوبصورت بن گیا ہے۔یہاں پولیس والوں نے مجھے دبوچ لیا۔اس کی وجہ میرا وہ زعفرانی رنگ کا شلوار سوٹ تھا جو دوران تقریر میں نے پہن رکھا تھا اے سی نے اسے شناخت کر کے مجھے پکڑوا دیا۔میرے ساتھی ارشد بھٹی اور فاروق بھی ساتھ تھے۔ارشد تو فورا غائب ہو گیا البتہ جب مجھے دھکے دے کر پولیس وین میں ڈالا جا رہاتھا تو فاروق کا کہنا تھا میں اپنے دوست کو اکیلے نہیں جانے دوں گا۔ اور اسے بھی مکے لاتیں مار کر گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ہماری پولیس کو اللہ سمجھے یہ پہلی وار ایسے حملہ آور وہوتی جیسے اس نے کوئی ملک دشمن قابو کر لیا ہو پنجاب پولیس تو ویسے بھی انگریزی تربیت کو اپنے اندر سے نہیں نکال پائی۔

اب جہاں تھانہ باغبانپورہ ہے یہاں چوکی ہوا کرتی تھی۔وہاں استقبلا کے لئے ایک اور مہاشے موجود تھے انہیں علم تھا کہ ان دونوں میں بڑا ملزم میں تھا اس نے دھنائی شروع کر دی اور سب سے پہلے جامہ تلاشی لی ایک طالب علم کی جیب میں ہوتا ہی کیا ہے وہ سٹپٹا کے رہ گیا امریکی کالوں کی طرح جب اسے کوئی خاص رقم نہ وصول ہوئی تو اس نے مزید مارنا شروع کر دیا۔میں نے اس سے سوال کیا مجھے کیوں مار رہے ہو۔اس نے جواب دیا یہ تو مجھے بھی نہیں پتا لیکن جو کوئی بھی میرے حوالے کیا جاتا ہے اسے درجہ سوم کی پٹائی لگائی جاتی ہے تمہارا جرم شدید ہے یا تو تم نے کسی لڑکی کو چھیڑا ہے یا کوئی جیب تراشی کی واردات کی ہے۔میں نے پائوں پر بیتھے اس کی بے رحمانہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا میں نے تو اپنے آقاۖکی حمئت میں تقریر کی ہے میں لاہور کا طالب علم لیڈر ہوں اور رہتا ادھر ہوں۔وہ ایک دم چونک اٹھا اور میں نے اپنے کانوں سے آوازین سنیں وہ کسی سے کہہ رہا تھا تواڈی۔۔۔ماں دی۔۔۔میرے کولوں کیہ کم لیندے او۔پہن۔۔۔میں تواڈا کیہ گوایا اے میرے کولوں پھل جئے عاشق رسولۖ نے کٹ پھنڈ چڑوا کے چنگا نئیں کیتا۔مجھے اس کا نام یاد نہیں اس نے میرے پیسے واپس کئے۔اور تھوڑی دیر بعد چائے لے آیا۔

وہ رو رہا تھا وہ اس بات پر رویا تھا کہ میں نے عاشق رسولۖ کو مارا ہے اور میں اپنے پاسے سینکنے کی وجہ سے اٹھے درد کی وجہ سے رویا۔میرے والد صاحب سندھ زمینیوں پے تھے میری ماں اکیلی میرے لئے تڑپ رہی تھی۔فاروق کا بھائی پیپلز پارٹی کا لیڈر تھا اسے رات کو ہی چھوڑ دیا گیا وہ اس شرط پر گیا کہ میری رہائی کی کوشش کرے گامجھے رات کو تھانہ سٹی لے جایا گیا اس پولیس والے نے کسی کے نام رقعہ دیا جو تھانہ سٹی میں ملازم تھا اس نے مجھے سونے کے لئے اپنا صندوق دیا کہ اس پر سو جائو۔کھانہ بھہ منگوا کر کھلایا وہ میرے ہاتھ چوم رہا تھا گویا اس کے ہاتھ کوئی پیر لگ گیا ہو۔اگلے روز جماعت اسلامی کے انور شیخ صاحب مجھے ملنے آئے بہت سا فروٹ لائے۔بعد میں پیپلز پارٹی کے شیخ اکرام اور نور الہی مجھے چھڑانے پہنچ گئے سعید چھرا نامی تھانے دار نے مجھ سے دعائے قنوت سنی اور مجھے چھوڑ دیا گیا۔یہ تھی ہماری اسیری اور رہائی جو ایک اعزاز سے کم نہیں ۔شائد قیامت کے دن ہمارے دائیں ہاتھ میں یہی وثیقہ اور راہداری ہو گی۔اللہ کرے میں اور فاروق دونوں اسی چٹ پر بخشے جائیں آمین۔تحریک چلتی رہی ایک دن قادیانیوں کی لائیبریری کو لوٹا گیا لوگ جو چیز ہاتھ لگی لے آئے مجھے کسی نے دو چار کتابیں تھما دیں۔ان کتابوں میں چودھری ظفراللہ خان ساہی سابق وزیر خارجہ کی کتاب تھی ۔یہ شخص افریقہ گیا وہاں تبلیغ کی اور بہت قادیانی بنا ڈالے۔یہ وہی منحوس ہے جس نے قائد اعظم کا جنازہ یہ کہہ کر چھوڑ دیا تھا کہ یا یہ مسلمان ہے یا میں۔پھر یوں ہوا کہ اسمبلی میں بحث چل نکلی اور اس طویل بحث کے نتیھے میں قادیانی غیر مسلم قرار پائے۔بھٹو کی بخشش اگر ہوئی تو اس نیک کام کی وجہ سے ہو گی۔اللہ تعالی ان سب کو جنت کے اعلی درجات میں جگہ دے جنہوں نے اس تحریک کو کامیاب بنایا۔آمین

 Iftikhar chaudhry

Iftikhar chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری