فلسطینیوں میں خودکشی کا رجحان

Suicide

Suicide

تحریر: علی عبداللہ
39 سالہ رزاق ابو ستہ فلسطینی سیکورٹی گارڈ تھا ۔ ایک دن اسے علم ہوا کہ اس کی تنخواہ بغیر کوئی وجہ بتائے کاٹ لی گئی ہے تو اس نے اس کی تحقیق شروع کی اور تنخواہ واپس لینے کی جدوجہد شروع کر دی ۔ تقریباً پانچ سال دھکے کھانے اور بے روزگاری سے تنگ آ کر اس نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ ایک دن رزاق 68 میٹر اونچی بلڈنگ کے ٹاور پر چڑھ گیا اور اسے یقین تھا کہ یہاں سے کود کر جان دینا ہی اسکے تمام مسائل کا حل ہے ۔لیکن سات گھنٹے اسی کشمکش میں رہنے کے بعد بالآخر خاندان اور بچوں کی محبت غالب آئی اور اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ۔ رزاق نے زندہ رہ کر بہادری سے مزید جدوجہد کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔

اسرائیل کی جانب سے کئے گئے قبضے کے نتیجے میں فلسطینی اپنی جان اور مال کی قربانی تو دے ہی رہے ہیں اب فلسطینیوں کو نئے نفسیاتی مسائل سے بھی نبٹنا پڑرہا ہے ۔ فلسطینی معاشرے میں خودکشی کا رجحان نہایت کم تھا اور کبھی کبھار ہی کوئی ایک آدھ خودکشی کا واقعہ سننے کو ملتا تھا ۔ لیکن موجودہ صورتحال کی بنا پر ماہرین صحت کے مطابق فلسطینیوں میں خود کشی کی کوششوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے ۔ 2016 کے پہلے تین ماہ میں تقریباً 95 فلسطینیوں نے خودکشی کی کوشش کی جو کہ گذشتہ سالوں کی نسبت 40 فیصد زیادہ ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیم یورو میڈیٹرینین مانیٹر کے مطابق پچھلے کچھ عرصے کے دوران غزہ میں خودکشی کے واقعات میں تیزی آئی ہے ۔ ڈاکٹر سمیع جو غزہ کمیونٹی مینٹل ہیلتھ پروگرام میں کنسلٹنٹ ماہر نفسیات ہیں کے مطابق اسرائیلی جارہیت کے نتیجے میں ڈیپریشن، تعلیمی کارکردگی میں کمی، بے خوابی، خوف اور بے چینی سمیت خودکشی کرنے جیسے مسائل روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔ اسکی بڑی وجہ لوگوں میں پھیلی مایوسی ہے ۔ انہیں ایک بڑے قید خانے میں قید کر دیا گیا ہے جہاں سے فلسطینیوں کو نہ تو کوئی اپنا مستقبل اور نہ ہی کوئی سیاسی حل دکھائی دیتا ہے ۔

غزہ کے ایک اور ماہر نفسیات اکرم نافی کے مطابق فلسطینیوں میں نہ صرف خودکشی کرنے کا رجحان بڑھا ہے بلکہ خودکشی کرنے کے انداز میں بھی بدلاؤ آیا ہے ۔ عموماً لوگ رات کے کسی پہر سکون سے خودکشی کی کوشش کرتے ہیں تاکہ باقیوں کو علم نہ ہو سکے لیکن اب فلسطینی ذہنی دباؤ کی انتہا پر ہیں اور وہ سرعام اذیت ناک خودکشی کے طریقے اپنانے لگے ہیں ۔ غزہ کے لوگوں میں خودکشی اور دیگر نفسیاتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ اسرائیلی قبضہ ہے ۔ اس قبضے کے نتیجے میں فلسطینیوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں جن میں بے روزگاری سر فہرست ہے ۔ بے روزگاری سے تنگ آکر فلسطینی بے چینی اور سٹریس کا شکار ہو کر مایوسی اور ناامیدی کی صورتحال سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر اکرم کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو فلسطینی خود کشی کرتے ہیں وہ باقاعدہ کسی ذہنی بیماری کا شکار نہیں ہوتے بلکہ وہ اس بات سے ناامید ہوتے ہیں کہ اب ان کی کوئی مدد کرنے آئے گا ۔ بنیادی سہولیات کا فقدان انہیں خودکشی کی طرف راغب کر دیتا ہے ۔

پوری دنیا میں غزہ 42 فیصد بے روزگاری کی شرح کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے ۔ بے روزگاری کی بنیادی وجہ مصری سرحد کا بند ہونا اور غزہ پر اسرائیل کا قبضہ ہونا ہے ۔اس وجہ سے لوگ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں اور نتیجتاً ڈیپریشن، انگزائٹی اور دیگر نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ نہ صرف بے روزگاری بلکہ غزہ کا 96 فیصد پانی انسانی صحت کے لیے مضر قرار دیا جا چکا ہے اور ساتھ ساتھ بجلی کی معطلی بھی فلسطینیوں کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے ۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق فلسطینی آبادی کو صحت اور دیگر بنیادی سہولیات دینا اسرائیل کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن ابھی تک اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے لیے سہولیات کی فراہمی شروع نہیں ہو سکی ۔

برطانوی میڈیکل ایڈ کے مطابق پچاس سالہ اسرائیلی قبضے کے نتیجے میں فلسطینیوں کی ذہنی حالت پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ جس بنا پر فلسطینی نہایت اذیت کا شکار ہیں ۔ فساد زدہ علاقوں کے مکین بچوں پر بھی برا اثر پڑ چکا ہے ۔ خوف اور بے چینی اور ڈراؤنے خوابوں سمیت کئی مسائل کا انہیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ماہرین کے مطابق ایسے بچوں کو مکمل پرسکون اور محفوظ علاقوں میں لے جانا ہی اس کا حل ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے ۔ مجبوراً اب ڈاکٹرز کو بچوں میں ادویات کا استعمال کروانا پڑ رہا ہے ۔ غزہ میں رہنے والے لوگ اب یروشلم کا نہیں سوچتے بلکہ ان کا خیال اب بجلی کی طرف ہوتا ہے کہ وہ کیسے کم از کم آٹھ گھنٹے حاصل کی جا سکتی ہے اور روزگار کیسے حاصل کر کے اپنے خاندانوں کو پالا جا سکتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اسلحے کی نہیں اب نفسیاتی جنگ شروع ہو چکی ہے اور یہی اصل خطرناک جنگ ہے ۔

دوسری جانب عالم اسلام کئی اندرونی و بیرونی مسائل کی بنا پر مرکزیت کو برقرار رکھنے میں ناکامی سے دوچار ہے ۔ اس صورتحال میں پاکستان اور دیگر مسلم ممالک خصوصاً خلیجی ممالک کو چاہیے کہ فلسطینیوں کو ان نفسیاتی مسائل سے چھٹکارا دلوانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ غزہ پر غیر قانونی قبضہ ختم کر کے فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین پر آزادی سے رہنے دے ۔ یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم عالم اسلام کو چاہیے کہ وہ اسرائیل سے فلسطینیوں کو بنیادی سہولیات اور روزگار کے مسائل سے نبٹنے کے لیے پر امن حل پیش کرنے پر آمادہ کرے تاکہ غزہ کے لوگ اپنی زندگی بہتر طریقے سے گذار سکیں۔

Ali Abdullah

Ali Abdullah

تحریر: علی عبداللہ