تحریر : رائو عمران سلیمان یہ نہایت ہی دردناک امر ہے کہ اس دور کا پڑھا لکھا شخص بھی اب دہشت گردی کی طرف مائل ہورہاہے اور اب یہ مسئلہ مدرسوں تک محدود نہیں رہاہے بلکہ یہ معاملہ اب یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں تک پھیل گیاہے ،ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے یہ انتہا پسند لوگ ان تعلیمی اداروں کا صرف ایک فیصد حصہ ہوتے ہیں سبھی طالب علم ان کے ساتھ نہیں جڑے ہوتے اور یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ یونیورسٹیاں معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتی ور نہ ہی ان تعلیمی اداروں کو آبادیوںسے دور رکھا جاسکتاہے یعنی اگرمعاشرے میں مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کے رحجانات پھیلے ہوئے ہو تو اس کے اثرات جب عوام کے گھروں پر پڑ سکتے ہیں تو کیا یونیورسٹیاں اس معاشرے کا حصہ نہیں ہوتی ؟اگر کوئی دہشت گرد کسی گھر سے پکڑا جائے تو کیا اس کا باپ یا رشتے دار بھی دہشت گرد ہی ہونگے۔
بلکل اسی طرح یہ یونیورسٹیاں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے اور اس میں کوئی اس قدر حیرانگی کی بات نہیں ہونی چاہیے دہشت گردی کچھ یونیورسٹیوں یا مدارس میں پنپ رہی ہیں ہمیں یہ تاثر زائل کرکے حقائق تک پہنچنا ہوگا پاکستان میں نادرہ کے لوگ جن انتہاپسند لوگوں کے شناختی کارڈ چند روپوں کی لالچ میں بناتے رہے تو کیا نادرہ کا ادارہ سارا کا سارا ہی کرپٹ اور معاشرے میں اچھوت ہو گیا ہے ؟ نہیں ہمیں ایسا بلکل بھی نہیں سوچنا چاہیئے کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دہشت گرد ہمارے کھلے دشمن ہیں تو پھر اس بات کو بھی مان لینا ہوگا کہ ان کا ٹھکانہ کہیں بھی ہوسکتاہے جس طرح گھروں میں بسنے والے نوجوان دہشت گردوں کے شکنجے میں آتے رہے اور ان گھروں کو ختم کرنے کی بجائے صرف دہشت گردی کو ختم کیا گیا بلکل اسی طرح سیکورٹی اداروں اورقانون سازی کرنے والے اداروں کو بھی اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے ناکہ مدارس یا یونیورسٹیوں کوتنقید کا نشانہ بنایا جائے درست رویہ یہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو قوم کے سامنے لایا جایا اور ایک ایسا میکنزم تیار کیا جائے جس کی مدد سے آئندہ دوبارہ ان اداروں میں مشکوک سرگرمیاں نہ پنپ سکیں ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ تشدد کے رحجانات یونیورسٹیوں میں ہی پیدا ہو کسی طالب علم یا سابق طالب علم کی یونیورسٹی کے باہر کی بھی کوئی زندگی ہوتی ہوگی ؟۔ہوسکتاہے کہ دہشت گردی کی سوچ اس طالب علم کی زندگی میں اس وقت سے جڑی ہو جب وہ اس ادارے کا طالب علم نہ ہو؟
ایسے لوگ صرف یونیورسٹیوں اور مدارس کے مقدس ہونے کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں یعنی وہ صرف ان مقامات پر پناہ لینے کی غرض سے کسی کورس وغیرہ کی تکمیل میں داخلہ لیتے ہو ؟یا پھر نادان دوستوں کی دوستیوں کی بنیاد پر پناہ لیتے ہو؟۔جہاں ایسے لوگوں کا خرچہ بھی برائے نام ہوتاہے اور وہ خود کو محفوظ بھی سمجھتے ہو، جہاں تک ایسے انتہا پسند طالب علموں کا معاملہ ہے تو جو دہشت گرد کلعدم تنظیمیںجب ان لوگوں کو استعمال کرتی ہیں وہ ان کو خفیہ انداز سے فنڈز بھی فراہم کرتی ہونگی،ان کو لیپ ٹاپ ، موبائل فونز اور کمپیوٹرز بھی ملتے ہونگے ۔جبکہ آجکل سوشل میڈیا بھی دہشت گردوں کا ایک بڑا ہتھیار سمجھا جارہاہے جو کچھ جزباتی اور سخت مزاج طالب علموں کو فالو کرتے ہیں،گزشتہ دنوں میری نظروں سے ایک رپورٹ گزری جس کے مطابق کلعد م تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کچھ پڑھے لکھے انتہا پسند لوگ یونیورسٹیوں کے طالب علم کو انٹرنیٹ سے منسلک کرکے انہیں فالوکرتے ہیں اور ان کی مالی مدد بھی کرتے ہیں اور انہیں اپنے گروپس میں شامل کرکے پھران کی برین واشنگ کا عمل شروع کیا جاتاہے ۔دوسری طرف ضروری نہیں کہ یہ انتہا پسندی کا معاملہ صرف طالب علموں تک محدود ہوآج کل کچھ اساتذہ اور پروفیسرز بھی ملکی سا لمیت کے خلاف اپنا گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں ،جن کا ایجنڈاان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی انتہاپسند رویوں کے ساتھ تربیت کرنا ہوتا ہے جو معصوم طالب علموں کو اپنے ملک دشمن کاموں کے لیے تیار کررہے ہوتے ہیں ،یقیناً یہ لوگ پاکستان کے تمام شعبہ جات میں گھسے بیٹھے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اب ایک طویل عرصہ ہوچلاہے دہشت گردی کے بہیمانہ واقعات میں اضافہ ہی دیکھا گیا ،کیا مدارس کیا مساجد کیا یونیورسٹیاں اور اسکول اور کیامساجد امام بارگاہیں ان دہشت گردوں نے گزشتہ دودہائیوں سے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا۔
کبھی پولیس پر حملہ کبھی فوج کبھی رینجرزتو کبھی تفریحی گاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، جس معاشرے میں اس قدر مختلف اندازمیں واقعات جنم لے چکے ہوتو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یونیورسٹیاں بھی اسی معاشرے کا ہی حصہ ہیں لہذا ہمیں ان تعلیمی اداروں سے ان ناسوروں کو ڈھونڈ نکالنا ہے ان کاخاتمہ کرناہے اور ایک ایسا نظام لانا ہے کہ ان اداروں میں صرف طالب علموں کو وطن سے محبت کا ہی درس ملے ان کی زہنی نشونما انسانیت سے محبت ہو ان کی تعلیم وتربیت ایسی ہو کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منواسکے اور اپنے والدین سمیت اس تعلیمی ادارے کانام بھی روشن کرسکیں،ہمیں اسی طرح تشدد کے یہ رحجانات ہر جگہ پر ہی پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں یقیناً ہمیں اپنی فوج رینجرز ، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کی قدر کرنی چاہیے جو ہمیں ان ناسوروں سے نجات دلاتے ہیں۔
جنھوں نے ہمارے تحفظ کے لیے ہر محاز پر اپنی جانوں کو قربان کیا ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے ناسور کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے ایک مظبوط اور جامع حکمت عملی کو مرتب کرنا ہوگا اور ایسی حکمت عملی نہیں جو وقتی ہو سانحہ اے پی ایس نے پوری قوم اور سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا مگر اے پی ایس کا سانحہ ذہنوں سے نکلنے لگا تو یہ تمام حکمت عملیاں اور جزبات بھی جھاگ کی طرح بیٹھنے لگے ،مطلب ایک ایسے جزبے کی ضرورت ہے جس میں سیاست نہ ہو بلکہ یہ خالصتاً ملک کی فلاح وبہبود اور اس کی سالمیت کے لیے پیدا ہو اور طویل المیاد ہو۔آخر میں میں یہ کہونگا کہ یہ ایک غیر منصفانہ رویہ ہوگا کہ تعلیمی اداروں یا یونیورسٹیوں کا خاتمہ کیا جائے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ان تعلیمی اداروںکو ختم کرنے کی بجائے اس میں موجود دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔