اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں پاناما فیصلے پر شریف فیملی کی نظرثانی درخواست پر سماعت کل تک کے لئے ملتوی، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی زیرسربراہی جسٹس اعجازافضل، جسٹس عظمت شیخ سعید، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس گلزار احمد نے کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں دوسرے روز جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا آرٹیکل 62 کا دائرہ کار بڑا وسیع ہے اور یہ اثاثوں کو ظاہر کرنے سے متعلق نہیں ہے، قانون اثاثوں کو ظاہر کرنے کا پورا طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا آرٹیکل 62 کے اطلاق کے نتائج بڑے سنگین ہیں، عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت الیکشن کالعدم ہونے پر تاحیات نااہلی نہیں ہوتی، نوازشریف کو کیپیٹل ایف زیڈ ای کے معاملے پر نا اہل کیا گیا، بلیک لاء ڈکشنری کی تاریخ کی زیادہ گہرائی میں نہیں جاؤں گا، اثاثے کے لفظ کے ایک سے زیادہ معنی اور تشریح ہیں۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ نہ لی گئی تنخواہ ظاہر نہ کرنے کی وجہ کیا تھی، آرٹیکل 62 صادق و امین ہونے سے متعلق ہے، نواز شریف نے تنخواہ کا دعوٰی کیا نہ کبھی تنخواہ لی، اثاثہ نہ سمجھنے کے باعث ظاہر نہیں کیا گیا۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا معاہدے میں 10 ہزار درہم تنخواہ لکھی گئی ہے، پہلے تنخواہ زیادہ لکھی گئی پھر تنخواہ میں کمی کی گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے خواجہ حارث سے استفسار کرتے ہوئے کہا آپ کہتے ہیں نواز شریف تنخواہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے لیکن تحریری طور پر کہیں نہیں لکھا کہ تنخواہ نہیں لی جائے گی، قانون میں تحریری شہادت کو زبانی بات پر اہمیت حاصل ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ملازمت کا معاہدہ واضح کہتا ہے کہ 10 ہزار درہم تنخواہ ہوگی اور یہ تحریری دستاویز بھی موجود ہے، اس لئے ہم تحریری دستاویز کی موجودگی میں تنخواہ نہ لینے کی زبانی بات کیسے مان لیں۔ خواجہ حارث نے کہا تسلیم کرتے ہیں کہ نوازشریف تنخواہ کے اہل تھے، مگر نواز شریف نے کبھی تنخواہ وصول نہیں کی۔
خواجہ حارث نے کہا اصل سوال آرٹیکل 62 کے اطلاق کا ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا جو شخص پہلے دن الیکشن لڑنے کا اہل نہیں تھا، فرزند علی کیس کے مطابق اسے نااہل قرار دیا جاسکتاہے، جس پر خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ نا اہلی نہیں الیکشن کالعدم ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا اثاثے چھپانے والا نمائندگی کا حق نہیں رکھتا، خواجہ حارث نے کہا جے آئی ٹی نے ایسا کوئی اکاونٹ نہیں دیا جس میں نوازشریف کی تنخواہ ڈالی گئی۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا عدالتی فیصلے میں تنخواہ وصولی کے اکاونٹ کا ذکر نہیں۔خواجہ حارث نے کہا نوازشریف نے اپنے تمام اکاونٹ گوشواروں میں ظاہر کیئے۔ وکیل نواز شریف نے دلائل میں کہا ہر آمدن اثاثہ نہیں ہوتی، آمدن اکاونٹ میں ہوتی ہے یا اس شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا ایک بھی ایسے فیصلے کی مثال نہیں جہاں اثاثہ چھپانے پر آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہل کیا ہو، عدالت نے نیب کو ریفرنس تیار کر کے دائر کرنے کا حکم دیا، خواجہ حارث نے کہا جے آئی ٹی رپورٹ مکمل نہیں تھی اور اسکی دستاویزات زیادہ تر ذرائع سے حاصل کر دہ تھیں۔جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا جے آئی ٹی کے شواہد مطلوبہ معیار کے نہیں تو فائدہ آپکو ہوگا، احتساب عدالت میں غلطیوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ یہ حکم نہیں دیا کہ جے آئی ٹی کے شواہد پر ملزمان کو سزا دے دیں، احتساب عدالت میں شواہد ریکارڈ ہونگے اور جرح ہوگی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا جے آئی ٹی رپورٹ کو نا قابل تر دید سچ تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اس رپورٹ پر نواز شریف کو مجرم قرار دیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کبھی نہیں کہا جے آئی ٹی رپورٹ پرفیکٹ ہے۔ خواجہ حارث نے کہا جے آئی ٹی کی نامکمل رپورٹ پر ریفرنس دائر نہیں ہوسکتے تھے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کیا اب ہم جے آئی ٹی کو تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیں۔
خواجہ حارث نے کہا عدالت کو نامکمل تحقیقات پر درخواستیں مسترد کرنی چاہیے تھیں، عدالت نیب کو قانون کے مطابق معاملے کا جائزہ لینے کا حکم دے سکتی تھی، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد رپورٹ مکمل تصور ہوگی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کیا ہماری ہدایات سے احتساب عدالت میں کیس پر اثر ہوتا ہے، عدالتی آبزورویشن آپکے راستے میں نہیں آئے گی، ٹرائل کورٹ اپنا فیصلہ کرسکتی ہے اور اپنا نتیجہ اخذ کرسکتی ہے۔ خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ جے آئی ٹی پر سوال اٹھائے گئے تو ٹرائل کورٹ آپکا حکم دکھا دے گی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا آپ چاہتے ہیں کہ معاملہ نیب کے سپرد کر دیں، چیئرمین نیب نے جو عدالت میں کہا وہ ہمیں معلوم ہے، تمام ججز نے اس معاملے پر کھل کر رائے دی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا نیب خود کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا، ہمیں اندیشہ تھا کہ چیئرمین نیب اسپانوی زبان میں ریفرنس دائر نہ کر دیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا عدالت نے فیصلے میں محتاط زبان استعمال کی۔ خواجہ حارث نے کہا عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ بادی النظر میں کیس بنتا ہے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا بادی النظر کی جگہ پھر ہم کیا لکھتے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا ہم کہہ دیتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی سفارشات عبوری ہیں، کہہ دیتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ ہماری آبزوریشن سے متاثر نہ ہو۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا عدالت کو تشویش ہے کہ چیئرمین نیب کچھ نہیں کرنا چاہتے، سپریم کورٹ کئی مقدمات میں چالان ٹرائل کورٹ میں دائر کرنے کا کہہ چکی ہے۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا ایسی کوئی مثال نہیں جہاں عدالت نے شخصیت پر مبنیٰ ہدایات دی ہوں، عدالت نے سب بچوں اور بڑوں کے نام دے دیئے ہیں۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا بچے بالغ ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا نیب کو اختیار دیتے اگر کیس بنتا ہے تو ریفرنس دائر کرے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ چاہتے ہیں کہ چیئرمین نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا اختیار دے د یں، چیئرمین نیب کی جانبداری پر عدالت کہہ چکی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا عدالت نے 6 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کی اور قانون میں 1 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا لکھا ہے۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہم نے تو 5 ماہ زیادہ دے دیئے ہیں۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا ٹرائل کورٹ میں تو 2 سال تک مقدمے چلتے ہیں، عدالت کروائے تو 30 دن میں ٹرائل مکمل کروائے، دوسال بعد ملزمان کی ضمانت کی درخواست سپریم کورٹ میں آتی ہے، انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔
عدالتی وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو حکومتی وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ شکائیت کنندہ بن گئی ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا احتساب عدالت میں آپ جے آئی ٹی کے اراکین پر جرح کرسکتے ہیں، ہم لکھ دیتے ہیں کہ ہماری آبزرویشن اثرانداز نہیں ہوگی۔ خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا میرے موکل کا حق ہے کہ اسے فیئر ٹرائل ملے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا نواز شریف کو ریلیف بھی اسی عدالت نے دیا،ان کے خلاف کئی کیسز سپریم کورٹ میں آئے۔ عدالت نے خواجہ حارث کے دلائل کی تعریف بھی کی۔
اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا ریفرنس دائر کرنے کا حکم قانونی بنیاد پر نہیں دیا گیا، عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کیا گیا، قانونی اعتراض کسی بھی وقت اٹھایا جاسکتا ہے، کیا اسحاق ڈار اگر اپنے کسی ماتحت کو تھپڑ مار دے تو وہ معاملہ بھی یہاں آئے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جن نقاط پر نظر ثانی چاہیے اسکی نشاندہی کریں، احتساب عدالت میں آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام لگے تو ٹرائل کورٹ کو بتا دیں، 90 لاکھ کے اثاثے بڑھ کر 990 لاکھ کے ہوگئے، جو خطوط اسحاق ڈار نے لگائے ان میں خلیفہ کا نام غلط ہے۔ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے کہا اثاثوں میں اضافہ 15 سالوں میں ہوا۔ جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا جو جواب نیب کو دینا ہے وہ آپ یہاں دے رہےہیں۔ شاہد حامد نے کہا 20 اپریل کے فیصلے میں میرے موکل کے خلاف تحقیقات کی کوئی ہدایت نہیں تھی، جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کے خلاف تحقیقات کر کے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ مقدمے میں فریق تھے آپ چاہتے ہیں کہ معاملے میں آنکھیں بند کر لیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا اسحاق ڈار نے جو اعترافی بیان دیا اسکو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ اعترافی بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا میڈیا پر ہمارے خلاف مہم چل رہی ہے، ہرزہ سرائی کی مہم کو آپکا اور خواجہ حارث کا موکل چلا رہا ہے، جیسا کرو گے پھر ویسا بھروگے۔ عدالت نے پاناما فیصلے پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کل تک کے لئے ملتوی کر دی۔