تحریر : شاہ بانو میر “”تیمیہ”” کون تھیں؟ ان کا اپنا نام تو”” احمد”” تھا ٬ یہ نام ایک خاتون کا تھا٬ امام ابن تیمیہ کے آباء و اجداد میں تھیں اپنے وقت کی بہت بڑی اسکالر تھیں ٬ ایک عورت کے نام سے وابستگی اس لئے ہوئی کہ وہ ان کے خاندان کی انتہائی عبادت گزار اور علوم کی ماہرخاتون تھیں۔
نسلوں کی تربیت ے حوالے سے ایک عالمہ فاضلہ ماں کا کردار ان کی نسلوں میں کئی عظیم علماء کی موجودگی سے تاریخ ثابت کرتی ہے٬ ایک عورت کی وجہ سے علم نسل در نسل آگے سے آگے پھیلتا ہے٬ عورت کا متحرک کردار بظاہر معاشرے میں دکھائی نہیں دیتا مگر اولاد کی بنیاد میں یہی عورت بنیادی کردار ادا کرتی ہے ٬ “”عورت یا مرد اللہ پاک اس کے عمل کے مطابق اجر دیتا ہے”” اس عظیم خاتون کے خاندان میں کئی اسکالر ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہوئے لیکن انہیں خاص شہرت نصیب ہوئی ٬ علمی شخصیت کی اکثریت دنیا سے جانے کے بعد لوگوں میں مقبول ہوتی ہیں۔
امام تیمیہ اس لحاظ سے خوش نصیب تھے کہ ان کی علمی خدمات اور علمی آگہی کو زندگی میں ہی تسلیم کیا گیا٬ انہیں علمی خدمات کے اعتراف پر “” شیخ السلام””بھی کہا جاتا ہے ان کے دادا اور ان کے والد چچا بہت بڑے عالم تھے ٬ چچا”” ابن فخرالدین”” نے کئی ضخیم جلدوں میں قرآن کی تفسیر لکھی آپ نے ان سے بھی سیکھا اتنی بڑی علمی شخصیات گویا علم کا دریا گھر میں موجزن تھا جس سے انہوں نے دل کھول کر استفادہ حاصل کیا٬ امام ابن تیمیہ نےبہت چھوٹی عمر میں قرآن پاک کو حفظ کر لیا۔
ان کا بچپن عام بچوں جیسا نہ تھا ایک بار ان کے والد سب بچوں کو باغ لے جا رہے تھے یہ نہ گئے جب شام کو واپسی ہوئی تو انہوں نے والد کو ایک کتاب دکھا کر کہا آج میں نے یہ کتاب حفظ کر لی٬ والد نے تعجب سے پوچھا ساری کتاب؟ اچھا سناؤ!!! انہوں نے کتاب سنا دی والد نے ماتھے پر بوسہ دیا اور منع کیا کہ کسی کو مت بتانا نظر لگے گی٬ ابو ظہریٰ مصری نے بیان کیا ٬ واقعہ حلب کے ایک مشہور عالم دمشق آئے کہ میں احمد نامی بچے کے بارے میں بہت سنتا ہوں سفر کر کے آیا ہوں کہ خود اس کو دیکھوں کہ اس کی بابت جو کہا جاتا ہے وہ سچ ہے؟ ایک درزی نے کہا کہ ایسا بچہ یہاں ہے آپ بیٹھیں ابھی یہاں سے گزرے گا۔
کچھ دیر بعد اس نے کہا یہ بچہ جو”” بڑی سی تختی”” لے کر جا رہا ہے یہ ہے احمد انہوں نے پکار کر پاس بٹھایا تختی دیکھی اور کہا کہ یہ سب مٹا دو جو میں کہتا ہوں وہ لکھو “”جی بہتر”” کہتے ہوئے ساری تختی کی تحریر مِٹا دی٬ جب لکھ لیا تو انہوں نے پوچھا کیا تم نے لکھ لیا ہے آپ نے اثبات میں سر ہلایا تو انہوں نے تختی مانگی٬ امام ابن تیمیہ نے ایک نگاہ تختی پر ڈالی اور تختی دے د ی آپ نے وہ 13 احادیث بول کر سنائیں جو شیخ صاحب نے لکھوائیں تھیں ( فوٹو گرافک میموری) انہوں نے پھر تختی واپس کی تحریر مٹائی اور نئی تحریر لکھنے کو کہا شیخ صاحب نے اپنی سندوں کے ساتھ احادیث کو لکھوایا اور پھر سنانے کو کہا انہوں نے پھر روانی سے دہرا دیا۔
شیخ صاحب بہت خوش ہوئے انہوں نے پیشین گوئی کہ “”اگر یہ بچہ زندہ رہا تو یہ بہت بلند مرتبہ پائے گا میں نے زندگی میں ایسا بچہ ایسا اچھا حافظہ اور ذہانت نہیں دیکھی”” یہ وہ دور تھا جب تاتاریوں نے حملہ کر کے عراق میں علمی درسگاہیں برباد کر دی تھیں ٬ عراقی لوگ جاہلانہ رسوم میں مبتلا ہو گئے٬ لوگ ان سے رابطہ کرتے عقائد کی اصلاح کیلئے تاکہ وہ درست اعمال سر انجام دیں٬ درست عمل کیلیۓ عقائد کی درستگی ضروری تھی کہ مبہم علم غلط اعمال کا پیش خیمہ بنتا ہے اور غلط اعمال آخرت میں صرف خسارے ہیں٬ جاری ہے۔