تحریر : منذر حبیب سعودی عرب کی طرف سے گذشتہ برسوں کی طرح امسال بھی حج کے موقع پر بہترین انتظامات کئے گئے جس پر دنیا بھر کے مختلف ملکوں اوران کے عوام کی جانب سے سعودی حکام کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ حج انتظامات اس قدر اچھے تھے اور تمام معاملات اس طرح بخیر و خوبی انجام پائے کہ ایران کی جانب سے بھی سرکاری سطح پر خادم الحرمین شریفین کا شکریہ ادا کیا گیا اور اس امر کا اعتراف کیا گیا کہ ان کے 88ہزار باشندوں نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی جن میں سے کسی ایک نے بھی حج انتظامات کے حوالہ سے اپنے خدشات کا اظہار نہیں کیا۔ ایران کی حج تنظیم کے سربراہ علی قاضی عسکر نے حج کے تمام امور بطریق احسن انجام پانے پر سعودی حکام کی طرف سے کئے گئے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیااورکہاکہ ایران کے تمام عازمین ‘حج انتظامات سے مطمئن نظر آتے ہیں۔
اسی طرح دنیا بھر کے دیگر مسلمان ملکوںکی حکومتوں، ان کے عوام اور مختلف تنظیموں کی جانب سے بہترین حج انتظامات پر سعودی عرب کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے۔ وزارت مذہبی امور کی طرف سے الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ حج کے دوران سعودی کمپنیوں کی جانب سے غیر مناسب انتظامات کئے گئے جس سے پاکستانی عازمین حج کو منیٰ میں ٹرانسپورٹ اور خوراک وغیرہ کی صحیح معنوں میں سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔وزارت مذہبی امور کی جانب سے خطیر رقم کے ذریعہ حج 2017کیلئے مثالی انتظامات کئے جانے اور حج آپریشن کو فول پروف بنانے کیلئے اشتہارات شائع کروائے گئے اور پریس کانفرنسوں کے ذریعہ اس کی زبردست تشہیر کی گئی مگر صورتحال اس کے بالکل الٹ دکھائی دی۔ تقریبا پچاس ہزار کے قریب حجاج کرام کو منی سے عرفات تک پیدل سفر کرنا پڑا۔ سرکاری سکیم کے تحت حج پر جانے والے پاکستانی عازمین کو منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات میں سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور وہ لاوارثوں کی طرح بے یارومددگار نظر آئے۔یہ بھی کہاجارہا ہے کہ بعض بزرگ اور کمزور لوگ ٹرانسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے عرفات وقت پر پہنچ ہی نہیں سکے۔
وزارت مذہبی امور کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ عزیزیہ میں رہائش نہ رکھنے والے 9ہزار پاکستانی عازمین حج کو تیس سو ریال فی کس اور جنہیں عرفات اور مزدلفہ پیدل جانا پڑا انہیں 250ریال واپس کئے جائیں گے۔ میرا سوال ہے کہ اگر بعض لوگ عرفات نہیں پہنچ سکے تو وزارت مذہبی امور بتائے کہ کیا ان کا حج مکمل ہو گیا ہے؟ ایسے لوگوں کو تو ان کی طرف سے جمع کروائی گئی رقم ساری کی ساری واپس کرنی چاہیے بلکہ انہیں سرکاری خرچ پر دوبارہ حج کروانا چاہیے۔ انہیں جس ذہنی اذیت کا سامناکرنا پڑا ہو گا اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کی زیر نگرانی پچھلے سال بہت اچھے انتظاما ت کئے گئے جس پر پاکستان اور سعودی عرب سمیت دیگر ملکوں کی طرف سے بھی ان کی کارکردگی کو سراہا گیا لیکن امسال جس طرح حجاج کرام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ ا ہے اس نے ان کے سابقہ کرداراور وقار کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ وزارت مذہبی امور میں کن لوگوں کی غلطیوں اور نااہلی سے حجاج کرام کیلئے مسائل کھڑے ہوئے اور دنیا بھر میں اس حوالہ سے پاکستان کا امیج خراب ہوا ہے۔
وزارت مذہبی امور کی صورتحال اس وقت یہ ہے کہ ایک جھوٹ چھپانے کیلئے سو جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستانی حکام اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور عازمین حج سے بھی معافی مانگی جاتی لیکن افسوس کہ ایسا کرنے کی بجائے اپنی کرپشن، نااہلی اور جھوٹ چھپانے کیلئے سعودی عرب پر ہی الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیااور انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کیخلاف سازش ہو رہی ہے۔ جب حجاج کرام کی شکایات کا سلسلہ بڑھا توسب سے پہلے یہ خبر چلوائی گئی کہ سعودی عرب نے ناقص انتظامات پر پاکستان سے معافی مانگ لی ہے’ حالانکہ یہ بات سراسر جھوٹ تھی جس کی تصدیق سعودی سفارت خانہ کی طرف سے جاری کردہ شدید ردعمل سے بھی ہوئی۔ وزارت مذہبی امور نے الزام تراشی کرتے ہوئے کہاکہ امسال حجاج کرام کی تعداد زیادہ تھی لیکن اس کے باوجود سعودی حکومت نے منیٰ میں ٹرانسپورٹ اور ان کے قیام و طعام کی سہولیات کے اچھے انتظاما ت نہیں کئے۔اگر امسال پاکستانی عازمین حج کے کوٹہ میں بیس فیصد اضافہ ہوا اور پاکستانی زیادہ تعداد میں حج بیت اللہ کی سعادت کیلئے گئے تو اس پر ہمیں برادر اسلامی ملک کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ یہ رویہ قطعی طور پر درست نہیں ہے کہ سعودی حکومت کا احسان مند ہونے کی بجائے ان کیخلاف ہی الزامات عائد کرنے کا مذموم سلسلہ شروع کر دیا جائے۔کیا وزیر مذہبی امور بتا سکتے ہیں کہ سعودی کمپنیوں سے پاکستانی عازمین حج کیلئے ٹرانسپورٹ اور خوراک وغیرہ کے معاہدے کس نے کئے تھے؟۔ اگر راجہ بازار راولپنڈی جیسے کسی ہوٹل سے معاہدہ کر لیا جائے اور توقع کی جائے کہ انہیں میریٹ جیسے اعلیٰ ہوٹل کی سہولیات حاصل ہوں گی تو اس بات کی توقع رکھنا محض بے وقوفی ہی کہاجاسکتا ہے۔ سعودی سفارت خانہ کی طرف سے جاری کردہ وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ الزام درست نہیں ہے کہ سعودی کمپنیوں سے مناسب انتظامات نہیں کئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکام نے اپنے طور پر سعودی کمپنیوں سے معاہدے کئے اور تمام سہولیات انہی معاہدوں کے مطابق ہی فراہم کی گئیں۔ پاکستان سے آنے والے عازمین حج کیلئے رہائش و دیگر سہولیات کی مناسب فراہمی کویقینی بنانے کی ذمہ داری پاکستانی حکومت کی ہے۔اگر ان میں کوئی نقص یا کوتاہی رہ گئی ہے تو اس کا سبب پاکستانی حکام کی جانب سے کئے جانے والے وہ معاہدے ہیں جو انہوںنے اپنی مرضی سے مختلف کمپنیوں سے کئے تھے۔ منیٰ میں پاکستانی عازمین حج کیلئے ٹرانسپورٹ اور خوراک وغیرہ کے حوالہ سے کسی قسم کی غفلت کا ذمہ دار سعودی عرب کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سعودی سفارت خانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امسال 2017ء میں سعودی عرب نے حج کیلئے خصوصی طور پر 50پاکستانی شخصیات کی میزبانی کی اور انہیں مناسک حج کی ادائیگی میں بھرپور مدداور سہولت فراہم کی گئی ۔وزارت مذہبی امور کے ترجمان عمران صدیقی جس طرح سعودی عرب کیخلاف مسلسل الزام تراشیاں کر رہے ہیں اس سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے انہیں محسن ملک سے پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کا خصوصی مشن سونپا گیا ہے۔ انہوںنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ رواں برس خادم الحرمین شریفین کی خصوصی دعوت پر حج کیلئے جانے والے تین ہزار عازمین حج کو بھی وہاں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں صرف ویزہ فراہم کیا گیا مگر ان کیلئے رہائش ، خوراک اور ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے انہیں فٹ پاتھوں پر سونا پڑا۔
انتہائی دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وزارت مذہبی امو رکے ترجمان کی جانب سے اس سفید جھوٹ اور الزام تراشی کے بعد بھی کسی حکومتی ذمہ دارکی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔جس طرح انہوں نے جھوٹ اور دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خادم الحرمین شریفین کے پچاس پاکستانی مہمانوں کی تعدادبڑھا کر تین ہزارکر دی ‘ ان کی باقی باتیں بھی اسی طرح جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ اپنی کرپشن اور جھوٹ پر پردہ ڈالنے کیلئے پاکستان کے جس محسن ملک کیخلاف بہتان بازی کی جارہی ہے وہ مہمان کے طور پر جن پچاس لوگوں کے ویزے جاری کر سکتا ہے تو اس ملک کی طرف سے چند روزکیلئے ان کی خوراک اور رہائش وغیرہ کا بندوبست کرنا کیا مشکل کام ہے؟ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ دنیا بھر سے جو لوگ خادم الحرمین شریفین کے مہمان ہوتے ہیں ان کیلئے ویزہ اور سفری سہولیات سے لیکر ان کی رہائش، خوراک اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا مکمل بندوبست سعودی حکومت کی طرف سے ہوتا ہے۔میں سمجھتاہوں کہ وزارت مذہبی امور کی جانب سے جس طرح جھوٹ اور بددیانتی کا سہارا لیتے ہوئے برادر اسلامی ملک کی کردار کشی کی کوشش کی گئی ہے اس کے ذمہ دار عناصر کیخلاف سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور ایسے اہل اور ایماندار افراد کو ذمہ داریاں تفویض کرنی چاہیے جو حجاج کرام کی خدمت کو سعادت اور اسلامی فریضہ سمجھ کر ادا کرنے والے ہوں۔اس وقت یہ باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ وزارت مذہبی امور کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ بھارت سمیت بعض دیگر ممالک کو منی میں نزدیکی مکاتب اس وجہ سے ملتے ہیں کہ وہ زیادہ رقم ادا کرتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ہم سرکاری حج سکیم کے تحت حجاج سے کم رقم وصول کرتے ہیں اس لئے مشکلات پیش آتی ہیں لہٰذا آئندہ برس وزارت مذہبی امور حج مہنگا کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ پاکستانی حجاج کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جاسکیں۔میں سمجھتاہوں کہ حجاج کرام کی حالیہ شکایات کی آڑ میں اب حج مہنگا کرنے کے ارادے ظاہرکرنا درست نہیں ہے۔ پاکستان کی طرف سے پہلے بھی جو رقم وصول کی جارہی ہے وہ کسی طور کم نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ذمہ داران اپنی غلطیاں چھپانے اورعوام پر حج اخراجات کا مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے دینی خدمت اور اسلامی فریضہ سمجھتے ہوئے حجاج کرام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کا جذبہ پیدا کریں ‘ اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم سے نوازے گا اور آئندہ سے ان شاء اللہ اس طرح کے مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے۔