تحریر : طارق حسین بٹ شان لاہور کے حلقہ ١٢٠ کا معرکہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس دن فیصلہ ہو جانا تھا کہ قوم خفیہ ہاتھوں کی کارستانیاں دکھانے والوں کے ساتھ کھڑی ہے یا جمہوریت کی راہ پر چلنے والے جانبازوں کے ساتھ کھڑی ہے۔اس ضمنی انتخاب پر ایک شور برپاتھا اور پوری دنیا اس حلقے کو بڑے غور اور دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔عمران خان کی ٢٠١٨ میں فتح کی خشتِ اول بھی اسی حلقے نے رکھنی تھی جبکہ میاں محمد نواز شریف کی قیادت کا حتمی فیصلہ بھی اسی حلقے نے کرنا تھا۔ ایک بہت بڑے عدالتی فیصلہ کے بعد مسلم لیگ(ن) کی جیت نے اس بات کا عندیہ دے دیا ہے کہ سیاست دانوں کو عدالتوں سے نہیں بلکہ عوام کی عدالت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں کو ختم کرنے کے لئے ماضی میں کئی حربے آزمائے گئے لیکن کوئی سازشی تھیوری کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ عوام اپنے لیڈر کا ساتھ چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد میاں محمد نواز شریف اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ سیاست کے طالب علم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان میں خفیہ ہاتھوں کی منشاء او مرضی سے حکومتیں بنتی اور گرائی جاتی ہیں ۔جو کوئی خفیہ ہاتھوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا اسے اقتدار کی مسند سے بزور اتار دیا جاتا ہے اور اس پر کرپشن اور قومی دولت لوٹنے کے الزامات عائد کر کے ذلیل و خوار کیا جا تا ہے۔
میڈیا کا ایک مخصوص حصہ اسٹیبلشمنٹ کی اس سازش پر بلا چون و چرا عمل پیرا ہو جاتا ہے اور پھر کرپشن کی ایسی ہوشربا داستانیں پھیلائی جاتی ہیں کہ انسان دنگ رہ جائے۔یہ ایک سکہ بند طریقہ ہے جسے پاکستان میں تواتر سے دہرایا جا رہا ہے۔میاں محمد نواز شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ روا رکھا گیا تھا لیکن میاں محمد نواز شریف نے خفیہ ہا تھوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی بجائے آئینی حکمرانی کا مقدمہ پیش کیا تو انھیں عدلیہ کی تلوار سے ذبح کر دیا گیا۔٢٨ جولائی ٢٠١٧ کو عدالتی فیصلہ نے ایک منتخب وزیرِ اعظم کو جس بھونڈے طریقے سے فارغ کیا اس نے پاکستانی عوام کو مزید بر انگیختہ کر دیا۔ان کے لئے اپنے منتخب وزیرِ اعظم کی اس قدر تذلیل برداشت سے باہر تھی لہذا وہ میاں محمد نواز شریف سے اظہارِ یکجہتی کرنا چاہتے تھے جس کا واحد طریقہ انتخابات ہوتے ہیں۔
اس کا ایک انداز تو وہ استقبال تھا جو راولپنڈی سے لاہور کے عوامی اجتماعات میں دیکھنے کو ملا۔جی ٹی روڈ کا یہ استقبال آنے وا؛ے دنوں میں تاریخِ پاکستان میں عوامی حاکمیت کے تصور کو اجاگر کرنے کا سب سے بڑا اظہار گردانا جائے گا۔میڈیا نے اس استقبال کی اس طرح کور یج نہیں کی جس طرح اسے کور کرنی چائیے تھا کیونکہ خفیہ ہاتھوں کے خوف سے میڈیا کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں لہذا وہ کھل کھلا کر عوام کو اس تاریخی استقبال کی جھلکیاں دکھانے سے محروم رہے ۔ جان کی حفاظت تو ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور اسی حق کی خاطر اخباری رپورٹرز عوام کو جی ٹی روڈ کا حقیقی منظر دکھانے سے بے بس تھے۔
انھیںبھی توجان پیاری تھی اور اپنی جان کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں اور اہلِ خانہ کی زندگی بھی پیاری تھی لہذا وہ اس طرح کا پنگا نہیں لینا چاہتے تھے جس سے اسٹیبلشمنٹ غصے اورانتقام پر اتر آتی اور یوں اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اہلِ خانہ کی زندگیوں کی کو بھی خطروں سے دوچار کرنا پڑتا ۔ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں بے لاگ رپورٹننگ پر زندگی کا خراج دینا پڑا۔،۔عوام نے وزارتِ عظمی سے نا اہلی کے بعد میاں محمد نواز شریف کا جس طرح تاریخی استقبال کیا جی ٹی روڈ کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ راولپنڈی سے لاہور تک کا ایک ٹرین سفر ١٩٦٨ میں فخرِ ایشیا ذولفقار علی بھٹو نے بھی کیا تھا لیکن حالیہ استقبال اس سے کئی گنا بڑا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ذولفقار علی بھٹو ایک عظیم راہنما تھے جبکہ میاں محمد نواز شریف ایک اوسط درجے کے قائد ہیں لہذا ان کا ذولفقار علی بھٹو سے کوئی موازنہ نہیں بنتا ۔ہاں یہ درست ہے کہ میاں محمد نواز شریف اس وقت پاکستان کے مقبول ترین قائد ہیں۔
حکومتی وسائل اور ریاستی مشینری کی مدد سے میاں محمد نواز شریف نے جی ٹی روڈ پر عوامی حمائت کا جو تاثر قائم کیا تھا وہ عوام کی نگاہوں میں خو اب کی مانند گر کر گیا تھا اور لوگ جوق در جوق اپنے لیڈر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے مسلسل کئی دن اورکئی راتیں ان کے استقبال کی خاطر سڑکوں کو ناپتے رہے ۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد استقبال اور چاہت کا معیار کوئی اور ہوتا ہے جبکہ اقتدار کی مسند پر بیٹھے ہوئے استقبال کا رنگ کوئی اور ہوتا ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کا تاریخی استقبال اقتدار سے معزولی کے بعد دیکھا گیاتھا لہذا معتبر ٹھہرا۔میری ذاتی رائے ہے کہ کسی بھی تاریخی استقبال کو لباسِ مجاز میں دیکھنے کا پیمانہ انتخابات ہوتے ہیں لہذا میاں محمد نواز شریف کے لئے بھی ضروری تھا کہ وہ انتخاب میں یہ ثابت کر تے کہ ایک سازش کے تحت اقتدار سے ان کی بے دخلی انھیں عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکی۔حلقہ ١٢٠ میں ١٧ ستمبر ٢٠١٧ کو ہونے والے انتخاب میں مسلم لیگ (ن)کی جیت اسی عوامی استدلال پر محبت پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کا دوسرا نام تھا۔
پی ٹی آئی کی کوشش تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو عوامی ریفرینڈم میں بدل ڈالے لیکن عمران خان کی پارہ صفت طبیعت اس موقعہ سے بھر پور فائدہ نہ اٹھا سکی اور یوں عدلیہ کی غیر جانبداری کو عمران خان کے اپنے ہاتھوں سے شدید زک اٹھانی پڑی۔نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے شائد ایسے ہی مواقعہ کے لئے بولا جا تا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) تو سپریم کورٹ سے ڈسی ہوئی تھی لہذا اس کی تقاریر میں عوامی عدالت کے نظریہ کی تک سمجھ میں آتی ہے لیکن عمران خان جو سپریم کورٹ سے فتح مند ہو کر نکلے تھے ان کے منہ سے اس طرح کی باتیں سیاست سے ان کی عدمِ واقفیت پر دلالت کرتی ہیں۔انھیں حلقہ ١٢٠ کے انتخاب کو سپریم کورٹ سے اظہارِ یکجہتی کا انتخاب نہیں کہنا چائیے تھا کیونکہ عدلیہ کو عوامی جذبات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ عدلیہ جس بات کو آئین و قانون کے مطابق صحیح سمجھتی ہے اس کے مطابق فیصلہ صادر کر دیتی ہے۔کوئی اس فیصلے سے اختلاف کرتا ہے یہ اس کا آئینی حق ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلوں کی عوامی عدالت سے توثیق کسی عقل سے اندھے انسان کا نعرہ ہی ہو سکتا ہے۔عمران خان نے اپنی کم عقلی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو حلقہ ١٢٠ کے انتخاب سے مشروط کرکے اس کے ساتھ جو زیادتی کی ہے اس نے عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال کھڑے کر دئے ہیں۔عمران خان کو حلقہ ١٢٠ کے انتخاب کو سپریم کورٹ کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چائیے تھا کیونکہ اس طرح کی سوچ سے سپریم کورٹ ایک سیاسی جماعت بن کررہ جاتی ہے۔
اسی سوچ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مریم نواز کو یہ کہنے کا موقعہ مل گیا کہ عوامی عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو مسترد کر دیاہے۔عوام نے فیصلہ پر فیصلہ دے کر ثابت کیا ہے کہ نواز شریف کو ان کے دلوں سے کوئی نہیں نکال سکتا۔مسلم لیگ (ن) کی حالیہ جیت پر سپریم کورٹ سخت دبائو میں ہے ۔اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اس نازک موقعہ پر کیا کرے۔عوامی عدالت میں سپریم کورٹ کو شکست ہو گئی ہے کیونکہ عوام نے سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے میاں محمد نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے کوتر جیح دی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے ہتھکنڈوں سے ہر پاکستانی واقف ہے لیکن پھر بھی عوام نے مسلم لیگ(ن)کا ساتھ دے کرخفیہ ہاتھوں کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ ووٹ کی طاقت کے سامنے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ خفیہ ہاتھوں کاسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٥٨ ٹو بی کی عدم موجودگی میں اب اسمبلی کو تحلیل نہیں کر سکتے۔ عدالتی فیصلہ کے ذریعہ میاں محمد نواز شریف کو وزیرِ اعظم ہائوس سے تو نکال دیا گیا ہے لیکن اس فیصلہ سے عوام کے دلوں میں پلنے والی ان کی محبت اور وابستگی میںسرِ مو کوئی فرق نہیں پڑا۔ان کی مقبو لیت آج بھی برقرار ہے ۔وہ اب بھی وزیرِ اعظم پاکستان ہیں اور مسلم لیگ (ن) پر ان کی گرفت انتہائی مضبوط ہے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال