تحریر : مسز جمشید خاکوانی ایک شخص ہر وقت اپنی بیوی سے لڑتا رہتا تھا اور اس کی وجہ اس کا ایک قریبی دوست تھا جو اسے سکھاتا پڑھاتا کہ کس طرح بیوی کو کنٹرول میں رکھنا ہے تم اس کے کسی کام کی تعریف نہ کرو ورنہ وہ مغرور ہو کر تمہیں دو کوڑی کا کر دے گی کھانے میں ہمیشہ کیڑے نکالتے رہو تاکہ وہ اچھے سے اچھا کھانا پکانے کی کوشش کرے زیادہ کھلا خرچا دینے کی ضرورت نہیں ورنہ اس کی عادتیں بگڑ جائیں گی میکے مت جانے دیا کرو گھر میں ہمیشہ رعب سے رہا کرو میں نے بھی اسی طرح اپنے گھر میں ڈسپلن قائم کیا ہوا ہے اس شخص کا وہ دوست اکثر اس کے گھر سے کھانا کھاتا لیکن اپنے دوست کی بیوی کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے الٹا اس کے شوہر کو اس کے خلاف بہکاتا رہتا جس کی وجہ سے ان کی زندگی عذاب بن گئی تھی میاں بیوی کے درمیان اکثر لڑائی رہنے لگی اب یہ بھی اتفاق تھا کہ دوست کے روزانہ گھر آ جانے کی وجہ سے وہ خود کبھی اس کے گھر نہ جا پاتا اس کا گھر دور تھا دو بسیں بدل کر جانا پڑتا تھا کچھ بیوی سے ہر وقت کی چپقلش نے بھی زندگی آزار کر دی تھی حالانکہ اس کی بیوی بہت اچھی تھی اس کی ہر زیادتی کو ہنس کر ٹال دیتی کوشش کرتی اسے شکایت کا موقع نہ دے لیکن ناقدرے شوہر نے کسی طرح خوش ہونا سیکھا ہی نہ تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا شوہر اپنے دوست کے زیر اثر ہے آخر نوبت یہاں تک آ گئی کہ بیوی نے بھی تنگ آ کر محاذ سنبھال لیا۔
اب وہ ایک کی دس سناتی اس کے کھانے کپڑے کا خیال نہ رکھتی گھر بکھرا رہنے لگا میاں بیوی کے درمیان ناچاقی اس قدر بڑھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی وہ شخص بہت پریشان تھا شومئی قسمت کہ ان دنوں اس کا وہ مہربان دوست جس کے مشوروں پر وہ عمل کرتا تھا وہ بھی غائب تھا اس کا فون بھی بند تھا اپنی پریشانی میں اسے یہی خیال آیا کہ دوست کے گھر جا کر اس سے مشورہ لیا جائے کیونکہ بیوی اسے چھوڑ کر میکے جا چکی تھی وہ دو بسیں بدل کر اس کے گھر پہنچا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اندر سے آنے والی آوازوں نے اسے رک جانے پر مجبور کر دیا اس کے دوست کی بیوی اس کے دوست کو چیخ چیخ کر گالیاں دے رہی تھی ساتھ ہی برتن پھینکنے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں یہ ہے میرے دوست کا ڈسپلن؟ اس نے دل میں سوچا اچانک اس کے دوست کی منمناتی آواز آئی بیگم میں اپنی ساری تنخواہ تمہیں دے دیتا ہوں حتی کہ کھانا بھی اکثر دوست کے گھر کھاتا ہوں آخر میں تمھارے روز روز کے تقاضے کہاں سے پورے کروں ہر وقت میکے گھسی رہتی ہو کبھی کبھار گھر کی خبر لیتی ہو تو بھی آتے ہی فساد کھڑا کر دیتی ہو ،اس سے آگے سننے کی اس شخص میں تاب نہ تھی دروازہ کٹھکھٹانے کے لیے اٹھا ہاتھ وہیں گر گیا تو یہ تھا میرے دوست کا خوشحال گھر جس نے میرا گھر بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیاوہ سخت نادم تھا جو اتنی اچھی بیوی کی قدر نہ کر سکا اس کو رہ رہ کر اپنی زیادتیاں یاد آ رہی تھیں کاش میں دوست کی باتوں میں نہ آتا ندامت سے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے اب میں ہر زیادتی کی تلافی کروں گا بیوی کے میکے والی سائیڈ پر جانے والی بس میں سوار ہوتے ہوئے اس نے دل میں ایک عزم کیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ بروقت دوست کی اصلیت سامنے آ گئی اس کا گھر برباد ہونے سے بچ گیا۔
یہ کہانی مجھے اس وقت یاد آئی جب ٹی وی پر ایک طرف تو کراچی میں پریس کلب کے سامنے اساتذہ اور سابق پولیس والوں کی حاضر سروس پولیس دھلائی کر رہی تھی اور دوسری طرف آصف علی زرداری نوشہرہ میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے پشتونوں کو ان کے حقوق دلانے کی بات کر رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ پشتونوں کے حقوق کی بات کی ہے اب بھی ہم آپ کو ہزاروں نوکریاں دیں گے کسی نے یہ سوال نہیں کیا حضور آپ پہلے اپنے صوبے کی خبر تو لیں جہاں تنخواہیں نہ ملنے سے اساتذہ سڑکوں پر ہیں ان پر ڈنڈے برسائے جا رہے ہیں امن و امان صرف رینجرز کی زمہ داری بن چکا ہے پولیس اپنے ہی بھائی بندوں کی دھلائی کر رہی ہے اور آپ وہاں خطاب کی جرات نہیں فرماتے یعنی آپ تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب سے تو پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہو ہی چکا ہے اب سندھ میں بھی آپکی پارٹی کی حکومت اپنے آرڈر سے ایک کالج تک نہیں کھلوا سکتے آپ کے وزیر آعلی کے حکم کو رد کرتے ہوئے کالج انتظامیہ کا کہنا تھا ہمیں کورٹ کی طرف سے آرڈر ملے گا تو ہم کالج کھولیں گے ورنہ نہیں ۔۔۔۔ ادھر ہمارے پنجاب کے حکمران بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا شکار ہیں وفاق میں ان کی حکومت صوبے میں ان کی ،پنجاب پولیس ان کے تابع سرکاری ٹی وی ان کے انڈر ،ادارے ان کے غلام پھر بھی وہ جانے کس سے شکایت کر رہے ہیں کہ ہمارے بندے اٹھا لیے گئے ،ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے بے شک اپنے 34سال پرانے حلقے میں وہ اپنے 33000ووٹ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے کم کروا بیٹھے ہیں لیکن جیت تو گئے ہیں۔
گلہ کس بات کا؟ اور کس سے؟ عوام بھی جان چکی ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں مل کر انہیں اب تک بے وقوف بناتی رہی ہیں یہ ایک دوسرے کا سہارا ہیں بلکہ زرداری صاحب تو برملا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ انہوں نے کئی مشکل وقت میں نواز شریف کی حکومت بچائی ہے اس سے پہلے کہ عوام ان دونوں پارٹیوں کو مکمل طور پر ریجیکٹ کر دے یہ اپنے کرتوت ٹھیک کر لیں ایسا نہ ہو دوسروں کی خبر لیتے لیتے اپنا گھر گنوا بیٹھیں۔