دنیا کے عظیم حکمران حضرت عمر فاروق

Hazrat Umar (R.A)

Hazrat Umar (R.A)

تحریر : چوہدری غلام غوث
جب میرا دل آنسو بہانے کو کرتا ہے تو ایک ایسا واقعہ یاد کرتا ہوں جس سے نہ صرف میری آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں بلکہ پورے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ واقعہ کچھ یوں ہے صحابی رسول حضرت حذیفہ بن یمان جو کہ راز دار رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔آپ نے اپنی حیات طیبہ میں ان کو منافقین مکہ مدینہ کے نام چن چن کر بتا دئیے تھے ۔آقائے نامدار کی رحلت کے بعد صحابہ ہرمرنے والے مسلمان کا جا کر حضرت سے پوچھتے کہ یہ منافق تو نہیں تھا یا اس کا اس لسٹ میں نام تو شامل نہیں اور جس کا نام شامل نہ ہوتا تو وہ بتا دیتے اس کا جنازہ پڑھ کر اسے شریعت کے طریقہ کے مطابق دفن کیا جاتا۔ یہ سلسلہ چلتا چلتا حضرت عمر فاروق کے دور خلافت تک ان پہنچا آپ جب امیر المومنین بنے تو آپ کا اللہ سے ڈر اور خوف کا یہ عالم تھا کہ ایک روز آپ حذیفہ بن یمان کے پاس حاضر ہوئے ان کو علیحدہ کر کے ون ٹو ون بیٹھ گئے اورعرض کرنے لگے کہ میرے بھائی اس وقت آپ کے سامنے امیر المومنین نہیں بیٹھا ایک بے بس ، ناتواں اور کمزور اللہ کا بندہ بیٹھا ہے اور آج تم سے وہ سوال پوچھ رہا ہے جس نے سالوں سے اسے اضطراب اور پریشانی کے عالم میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے عرض کیا بتائیے تو فرمانے لگے خدا کے لئے مجھے صحیح صحیح بتائیے کہ منافقین کی اس لسٹ میں عمر فاروق کا تو نام شامل نہیں حضرت حذیفہ کی چیخیں نکل گئیں اور زارو قطار رونے لگے ہچکیاںبند ھ گئیں ماحول سوگواری میں ڈوب گیا جب ذرا طبیعت بحال ہوئی تو عرض کرنے لگے امیر المومنین اگر آپ جیسے سچے کھرے اور منصف کا نام اس لسٹ میں ہوتا تو خدا کی قسم مکہ او ر مدینہ کا کوئی مسلمان نہ بچتا جو اس لسٹ سے باہر جا سکتا آپ کی اس طہارت اور پاکیزگی والی سو چ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے آپ کے کہے گئے جملوں نے میری حالت غیر کر دی ہے ۔ یکم محرم الحرام دنیا کے اس عظیم شخص کا یوم شہادت ہے جو اپنے بارے میں اکثر کہا کرتے تھے کہ عمر تیرا باپ تو تجھے کہتا تھا کہ عمر تجھے تو اونٹ چروانے نہیں آتے توں تو اچھا چرواہا نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر کتنا کرم ہے کہ اس نے تجھے مسلمانوں کا امیر المومنین اور حکمران بنا دیا ہے اور پھر آپ نے اپنے دور خلافت میں انتظامی امو رپر ایسے ایسے شاندار اور جاندار قوانین اور ضابطے مرتب کئے کہ جن کا نہ صرف تذکرہ آج کی ترقی یافتہ قوموں میں ملتا ہے بلکہ انہوں نے اپنے ممالک میں ان قوانین کو عمر لاز کے نام سے رائج کیا ہوا ہے اور استفادہ حاصل کر رہے ہیں آپ نے اپنے دور حکومت میں نماز فجر میں الصلوة خیر من النوم کا اضافہ کروایا آپ کے عہد میں نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا ۔ آپ نے شراب نوشی کی سزا مقرر کی ۔ سن ہجری کا اجراء کیا۔ جیل کا تصور دیا ، موذن کی تنخواہ مقرر کی ، مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کروایا۔

پولیس کا محکمہ قائم کیا آپ نے ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی۔آپ نے فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کر کے پہلی مرتبہ فوجی چھاؤنیاں بنائیں ،آبپاشی کا نظام متعارف کروایا ۔ آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں ، معذوروں ، بیواؤں اور بے آسراؤں کے وظائف مقرر کئے ، آپ نے دنیا میں پہلی مرتبہ حکمرانوں ، سرکاری عہدیداروں اور والیان شہر کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا ، آپ نے بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور آپ نے پہلی مرتبہ حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کے لئے احتساب کا نظام لاگو کیا آپ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیدار ی کیا کرتے تھے ۔ گلیوں بازاروں میں گشت کا نظام آپ کا ذاتی طور پر معمول تھا آپ کا فرمان عالی شان تھا جو حکمران عدل کرتے ہیںوہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے آپ کی جو مہر سرکاری دستاویزات پر ثبت کی جاتی اس کے الفاط تھے ” عمر ! نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے ” آپ کے دستر خوان پر کبھی بھی دو سالن نہیں رکھے گئے آپ دوران سفر تپتے ریگستان میں درخت کے سائے میں سر کے نیچے پتھر رکھ کر سو جایا کرتے تھے آپ کے کرتے میں چودہ پیوند تھے جس میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا آپ موٹا اور کھردار کپڑا پہننا پسند فرماتے تھے نرم اور باریک کپڑے سے نفرت تھی۔

آپ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز فرماتے تو اس کے مکمل اثاثوں کا تخمینہ لگا کر اپنے پاس رکھ لیتے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اس کے اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا تو آپ اس کا احتساب کرتے آپ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا ، باریک کپڑے نہ پہننا ، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا ، دربان نہ رکھنا اور ہر فریادی کے لئے اپنا دروازہ کھلا رکھنا آپ فرماتے ظالم کو معاف کر دینا مظولوموںپر ظلم ہے آپ کا تاریخی جملہ آج کے انسانی حقوق کے چارٹر میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے ” مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں تم نے انہیں کب سے غلام بنا لیا ” فرماتے میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ ” عمر بدل کیسے گیا ” آپ دنیا کے پہلے خلیفہ تھے جنہیں باقاعدہ ” امیر المومنین ” کا خطاب دیا گیا دنیا کے تمام مذاہب کا کوئی نہ کوئی وصف ہے اور اسلام کا سب سے بڑا وصف اور خوبی عدل ہے اور حضرت عمر فاروق وہ ہستی ہیں جو اس وصف پر پورا اترتے ہیں کہ آپ کے عدل کی وجہ سے دنیا بھر میں عدل فاروقی ایک ضرب المثل بن گیا۔ آپ حکمرانوں کی ذمہ داریوں کو حقیقی معنوں میں جانتے تھے اس لئے آپ نے فرمایا تھا ” کہ اگر میرے دور حکومت میں فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کا حساب کتاب عمر فاروق کے کھاتے میں آئے گا ” آپ کے عدل کا یہ معیار تھا کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو دور دراز کے علاقے سے ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا لوگو، عمر رضی اللہ کا انتقال ہو گیا ہے لوگوں نے حیرت سے پوچھا تمہیں اس سانحہ کی اطلاع کس نے دی چرواہا بولا جب تک حضرت عمر فاروق زندہ تھے میری بھیڑ بکریاں جنگل میں بلا خوف و خطر پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا میں نے بھیڑیے کی جرآت سے جان لیا کہ آج دنیا میں عمر فاروق موجود نہیں رہے ورنہ بھیڑیے کی یہ جرآت نہ ہوتی ۔

آپ ایک با صلاحیت اور سخت منتظم اعلی تھے آپ نے 22 ۔ لاکھ مربع میل کی سلطنت گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر فتح کروائی اور خود اس کا انتظام و انصرام مثالی انداز میں چلایا آپ کے دور میں کبھی کسی عہدیدار کو بغاوت کرنے کی جرآت نہیں ہوئی آپ ایسے سپریم کمانڈر تھے کہ آپ نے عین میدان جنگ میں عالم اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کو معزول کر دیا اور کسی کو یہ حکم ٹالنے کی جرآت نہ ہوئی آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو کوفے کی گورنری سے ہٹا دیا آپ نے حضرت حارث بن کعب سے گورنری واپس لے لی آپ نے حضرت عمرو بن العاص کا مال ضبط کروا دیا اور آپ نے حمص کے گورنر کو واپس بلا کر اونٹ چرانے پر لگا دیا لیکن ان میں سے کسی ہستی کو حکم عدولی کی جرآت نہ ہوئی ، آپ کے ہی دور سلطنت میں اس وقت کی دو سپر پاورز ایران اور روم فتح ہوئے وہاں پر اسلام کا جھنڈا لہرایا گیا ۔ اسلامی تاریخ میں آپ کو مراد رسول کے نام سے جانا جاتا ہے آپ اللہ کے اتنے برگزیدہ بندے تھے کہ آپ کی منشاء سے ملتے جلتے احکامات قرآن مجید میں کم و بیش 26 جگہ پر نازل ہوئے جو اسلامی تاریخ میں موافقات عمر کے نام سے مشہور ہیں ۔ آپ کے بارے میں ہی تو اللہ کے رسول نے فرمایا تھا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی یا رسول ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے آج بھی یہود و نصریٰ کے بڑے اس بات پر متفق ہیں کہ اگر دنیا میں دوسرا کوئی عمر آ جاتا تو روح زمین پر کوئی غیر مسلم نہ ہوتا آقا کریم کا آپ کے بارے میں فرمان ہے کہ شیطان عمر فاروق کے سائے سے بھاگتا ہے ۔ آپ نے ساری زندگی امید اور خوف کے درمیان گزاری اور فرماتے تھے کہ اگر روز قیامت ساری مخلوق اللہ نے بخش دی اور ایک بندے کو نہ بخشا تو مجھے گمان گزرتا ہے کہ کہیں وہ عمر فاروق ہی نہ ہو ۔ دنیا کے اس عظیم حکمران اور سپہ سالا ر نے تقریباً 12 سال تک حکمرانی کی۔

آپ کو دوران نماز ابو لولو فیروز منافق نے حنجر سے وار کر کے شدید زخمی کر دیا ۔آپ تین یوم تک شدید زخمی حالت میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے آپ جب زخمی ہوئے تھے تو اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کو بلا کر ام المومنین حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور کہا جا کر اماں جی سے پوچھ کر آؤ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انو رکے پاس جو جگہ خالی ہے عمر وہاں اپنا مدفن چاہتے ہیں آپ کے بیٹے گئے اور جا کر امان جی کو آپ کا پیغام دیا اماں جی نے تھوڑا توقف فرمایا اور کہا کہ عمر کا جو مجھ پر احسان ہے اس کا تقاضہ ہے کہ میں آج ان کو یہ جگہ عنایت کرتی ہوں جو میں نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی جب آپ کے بیٹے نے آ کر بتایا تو آپ بے حد خوش ہوئے اور دوبارہ وصیت فرمائی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو جا کر میری میت حجرہ رسولۖ کے پاس رکھ دینا اور ایک مرتبہ پھر جا کر اماں عائشہ صدیقہ سے مجھے دفن کرنے کے بارے میں پوچھ لینا ہو سکتا ہے کہ پہلی مرتبہ انہوں نے مجھے خلیفہ اور حکمران ہونے کی وجہ سے انکار نہ کیاہو میرے انتقال کے بعد بھی اگر ان کا فیصلہ برقرار رہے تو مجھے حضور کے قدموں میں دفن کر دینا اور اگر اجازت نہ ملے تو مسلمانوں کے عام قبرستان میں مجھے دفن کر دینا ایسا ہی کیا گیا اماں عائشہ صدیقہ نے اپنے پہلے فیصلے کی توثیق کر دی آپ کو آقائے دو جہاں کے پہلو میں دفن کر دیا گیا دنیا کا عظیم انسان اپنے محبوب آقا کے ساتھ قیامت تک مدینہ منورہ میں مرجع خلائق ہے۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر : چوہدری غلام غوث