تحریر : جاوید ملک کمرہ عدالت میں اس بدبخت خاتون کے الفاظ نے گویا دھماکہ کر دیا۔ کئی لمحوں تک عدالت کو سکوت کی ایسی چادر نے ڈھانپ لیا کہ لگتا تھا گویا ہم کسی قبرستان میں کھڑے ہیں ۔ میں نے سو چا ایسی ہولناک خاموشی یقیناًکسی بدترین جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد دیکھنے میں آتی ہوگی جب شہر کے شہر تباہ ہوجائیں سڑکوں پر عمارتوں کے ملبے اور کٹے پھٹے انسانی اعضاء کے سوا کچھ نہ بچے یا سونامی کی تباہ کاریوں کے بعد جب بھی طوفان تھما ہوگا تو شاید موت کے جزیروں نے اس دردناک خاموشی کا جام پیا ہو۔
تباہی صرف گولہ باری سے نہیں ہوتی سنا تھا لیکن آج اس کا عملی مظاہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا معزز عدالت کے سامنے کھڑی اس عورت کے مکروہ اقرار نے ہمارے اخلاقیات، تمدن ، اقدار ، انصاف اور سوجھ بوجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا ہوس کی زہر میں لپٹے خونی رشتوں سے کھلواڑ کرنے والے اس معاشرے کی وہ بھیانک تصویر سامنے تھی جسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے ۔
روح تک کو چیرنے والی اس خوفناک خاموشی کو اپنی سخت گیری اور اصول پسندی کی بناء پر مشہور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سسکی نے توڑا منصف کی آواز بھی بھرا گئی تھی وہ اس وقت کرب کی کس کیفیت سے گزر رہے ہیں پورا قصہ ان کے چہرے پر رقم ہوگیا تھا ۔
جولائی 2015 میں پامیلا نامی خاتون نے تھانہ کورال میں اپنے باپ دلپذیر کیخلاف مقدمہ درج کروایا کہ اس کا باپ مسلسل چارسالوں سے اسے جنسی ہوس کا نشانہ بناتا رہا ہے میڈیا نے اس خبر کو مرچ مصالحے کے ساتھ چھاپا بعض ٹی وی چینلز نے اس حوالہ سے پروگرام بھی نشر کئے ، سماجی تنظیمیں بھی اپنے کتبے اُٹھائے سڑکوں پر نکل آئیں ایسی ہاہا کار مچی اتنی تھو تھو ہوئی کہ ملزم کی بات دب کر رہ گئی اس نے کہیں منہ کھولنے کی کوشش بھی کی تو تذلیل ، حقارت اوردھتکار کی غلاظت اس کے منہ میں ٹھونس کر آواز گلے میں ہی دبا دی گئی ۔
جس باپ پر اپنی بیٹی کے ساتھ جنسی درندگی کا الزام لگ جائے اس کو یہ معاشرہ سچ جھوٹ کی تفریق کئے بنا زندہ درگور کردیتا ہے اور یقیناًدو سال اس بد نصیب باپ نے قید و بند میں جن حالات کا سامنا کیا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے اور پھر گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے روبرو جب اس کیس کی سماعت ہوئی تو ملزم کی بیوی نے سچ اگل دیا اور انکشاف اس قدر بھیانک تھا کہ عدالت میں موجود ہر شخص انگشت بدنداں رہ گیا ۔ اس خاتون نے انکشاف کیا کہ وہ اپنے کسی آشنا کے ساتھ بیاہ رچانا چاہتی تھی اور شوہر کو راستے سے ہٹانے کیلئے اس نے یہ مکروہ منصوبہ ترتیب دیا اور اب وہ سخت پشیمان ہے ۔
2007ء میں انڈیا کے ایک معروف فلم ساز عزیز خان جن کی وجہ شہرت حقیقی کہانیوں پر فلم بنا نا ہے نے انڈر ٹرائیل نامی فلم بنائی تھی جو اسی موضوع کا احاطہ کرتی ہے فلم کے مرکزی کردار ساگر حسین پر بھی اپنی سگی تین بیٹیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزمام عائد کیا گیا اور اس سازش کے پہلو میں بھی اس کی بیوی کا لگ بھگ ایسا ہی گھناؤنا کردار تھا ۔معروف اداکار راج پل یادو نے ساگر حسین کا کردار کیا ۔ اس فلم میں بھی حقائق کھلنے کے بعد جب ساگر حسین کو باعزت بری کردیا گیا تو اس نے جیلر سے گزارش کی کہ مجھے پچھلے گیٹ سے باہر نکالا جائے کیونکہ میں میڈیا کے نمائندوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تو جیلر نے وہ تلخ سچ بولا جو ہمارے معاشرے کی بھی ڈراؤنی حقیقت ہے اس نے کہا ساگر حسین تم بری ہوگئے اب تمہاری خبر میں کوئی مصالحہ نہیں اس لیئے جیل کے مرکزی دروازے سے جاؤ کوئی کیمرہ تمہارا منتظر نہیں ہوگا یہاں مثبت خبر پیسے دیکر ، منت زاری کرکے ، تعلقات لڑا کر بھی چھپ نہیں پاتی ۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے میرا بہت عقیدت اور محبت کا رشتہ ہے میں ان کی عقل و دانش ، فہم فراست کا قائل ہوں ان کے کئی تاریخ ساز فیصلوں کو میں نے رپورٹ کیا لیکن انتہائی ادب کے ساتھ ان سے گزارش کررہا ہوں کہ ہماری معاشرتی اقدار کو تہس نہس کرنے والی خاتون کو معافی ایسے گھناؤنے ، مکروہ اور شاطرانہ کھیل رچانے والوں کی حوصلہ افزائی ہے ۔ مظلوم باپ تکلیف کے جس عمل سے گزراہے رہائی صرف اس کا مداوا نہیں ہے ۔ مظلوم خواتین کی داد رسی احسن قدم ہے مگر مکروفریب کے ذریعے مظلومیت کی جھوٹی داستانیں گھڑ کر قانون کو گمراہ کرنے والوں کا انجام بھی اس قدر عبرت ناک ہونا چاہیے کہ آئندہ کوئی قانون سے کھلواڑکا نہ سوچ سکے ۔ حقوق نسواں کو مٹھی بھر ننگ طبقہ بہ طور بلیک میلنگ استعمال کررہا ہے اور اس طبقہ نے گھناؤنے مفادات کے حصول کیلئے اس معاشرے کو گالی بنادیا ہے ۔ سچ سامنے آنے تک ملزم زندہ درگور ہوچکا ہے اور اب تو یہ کھیل اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ چکا ہے سیاسی جماعتیں بھی مخالفین کی مٹی پلید کرنے کیلئے ایسی خواتین ڈھونڈ نکالتی ہیں جو دوسرے کا حشر نشر کردیتی ہیں اور میڈیا چسکے لے لے کر اس مصالحہ دار ڈش کو بیچتا ہے ۔
حضور والا! کوئی ایسی مثال قائم کیجئے ، کوئی ایسی کسوٹی بنائیے کہ ان قوانین کا فائدہ عام خواتین کو ہواور ان کی شنوائی اور حقیقی انصاف کا رستہ ہموار ہوسکے ورنہ یہ قانون بازار حسن کی گلیوں میں بھنگڑے ڈالتا شرفاء کے کپڑے اتارتا رہے گا۔