ہو جائے نہ اونچا کہیں پانی تیرے سر سے تفہیمِ مہ و سال کے بے فیض ہنر سے دستار سے الجھے تو کبھی اپنے ہی سر سے اے ترکِ تعلق کے تمنائی ذرا ہوش! ہو جائے نہ اونچا کہیں پانی تیرے سر سے ہم اِس کی تمنائوں کا محور بھی رہے ہیں یہ شخص جو منہ پھیر کے گزرا ہے ادھر سے اب کوئی تکلّف بھی گوارا نہیں ہم کو بے زار ہوئے جاتے ہیں اِس خیر و خبر سے اِس شہرِ زیاں کار کے بازارِ ہوس میں کیوں دیکھیں تجھے ہم بھی زمانے کی نظر سے