تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری عید قربان کے شروع سے ہی سبزیوں کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں عید پر توپیاز ٹماٹر ادرک لہسن ،دھنیااور پودینہ کی قیمتیں یکدم بڑھ گئیں تھیں کہ ان کا گوشت کی مختلف ڈشز پکانے میں استعمال کیا جانا تھاپھر عید کی چھٹیوں کی وجہ سے سبزیاں مارکیٹ میں نہ پہنچ سکیں اور ان کی کمی واقع ہوگئی مگر اب تو مسلسل سبزیاں نایاب اور مہنگی ترین ہوتی جارہی ہیں اگر بازار میں مل بھی رہی ہیں تو ن کی قیمت سن کرکوئی غریب یا درمیانہ طبقہ کا فرد انہیں خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتاجن کمیٹیوں کے ذمہ ان کی قیمتیں سرکاری طور پر مقرر کرنا ہوتا ہے وہی عید سے آج تک قیمتوں میں 80فیصد تک اضافہ کرچکے ہیں ٹماٹر 250روپے کلو اور پیاز 150روپے کلو سے کم پردستیاب نہیںہے۔اور بعض جگہوں پر تو برائلر مرغی سستی اور ٹماٹر مہنگا ہو چکا ہے۔در اصل دنیا کے غلیظ ترین اور کافرانہ نظام سود کے علمبردار نو دولتیے سرمایہ دارذخیرہ اندوزوں نے عید سے چند روز قبل ہی ضروری سبزیوں کو اسٹاک کر لیا تھا اب جس مرضی قیمت پر چاہیں انہیں بیچ رہے ہیںاگر ان سود خور سرمایہ داروں کی اسٹاک کردہ سبزیوں کے انبار نکال کر مارکیٹ میں لاکر پھینک دیے جائیں تو قیمت معمول پر آجائے گی۔مگر چونکہ نو دولتیے سرمایہ دار جا گیر دار وڈیرے اور صنعتکار طبقات ہی برسر اقتدار ہیں اس لیے ایک دوسرے کے کاروباروں میں مداخلت نہیں کرتے ذخیرہ اندوز طبقے نے خواہ کتنے ہی سٹاک کر رکھے ہوں ان کے خلاف کاروائی کیے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہم سبزیاں و دیگر خوردنی اشیاء پھل وغیرہ مہنگے داموں خریدنے پر مجبور محض ہیں کہ ہمیں حکمران بھیڑ بکریاں سمجھ کر جدھر مرضی ہانکتے پھریں۔
ضمیر جس چیز کا نام تھا وہ عنقا ہو چکی ہم نے اتنے دھوکے کھائے ہیں اور ہر دور میں جغادری سیاستدانوں نے ہمیں ہمیشہ سبز باغ دکھا کر ووٹ تو حاصل کرلیے مگر بعد میں ہماری ایک نہ سنی ہر نئے الیکشن پر کوئی نیا بہروپیاغازہ پائوڈر مل کر عجیب و غریب چہرہ بنا کر ڈگڈگی بجاتا ہوا ووٹ لے کر رفو چکر ہوجاتا ہے پھر کیے گئے وعدے تو کجا شکل تک بھی نہیں دکھاتا۔
سبزیوں کے اگنے سے لیکریعنی ان کی کاشت برداشت اور انہیں منڈی تک پہنچانے سے قبل ان پرزہریلی ادویات کے چھڑ کائو کئی بار کیے جاتے ہیں جن سے کئی سبزیاں اندرون تک انہیں جذب کرکے زہریلی ہو جاتی ہیں ۔شومیٔ قسمت کہ ہمیں یہی کھانا پڑتی ہے سبزیوں کی سرکاری قیمتوں کی لسٹوں کو مکمل مسترد کرکے جو جس ریٹ پر بیچ سکتا ہے اسی پر بیچ رہا ہے مقامی انتظامیہ کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر سبزیوں پھلوں کی قیمتوں کی سرکاری لسٹیں جاری کی جاتی ہیں مگر ان کی ان دنوں پر ِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں۔پرچون مافیانے ایسی تمام لسٹوں کو مسترد کردیا ہے تمام سبزیوں آلو بند گوبھی پھول گوبھی کریلے ،کدو، ٹینڈے کھیرے سبھی کی قیمتیں عید کے بعد سے آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں ان کی قیمتیں بے قابو ہونے کے باجود حکومت قطعاً توجہ نہیں کر رہی کہ زیادہ وزراء مشیران تو پانامہ پانامہ کھیل رہے ہیںانتظامیہ کی طرف سے کسی قسم کی کاروائی کا نہ کیا جا نا ملی بھگت کی ہی وجہ سے ہو سکتا ہے صرف ٹماٹر کی قیمت پچا س سے سو روپے کلوتک سرکاری طور پر مقرر کی گئی ہے مگر عملا ً ٹماٹر 200,250روپے کلوسے کم پر دستیاب نہ ہے یہی حالت دیگر سبزیوں اور پھلوں کی ہے ۔
دوکانداروں پرچون فروشوں اور ریڑھی والوں کی من مانیاں علیحدہ ہیں ۔کہ پولیس تھانوں کی اشیر باد کے بغیر ایسا ہو ہی نہیں سکتا بہر حال عوام چکی کے دو پاٹھوں میں پس رہے ہیں انتظامیہ سرکاری قیمتیں بھی بڑھاتی جارہی ہے اور دوکاندار اس سے بھی دوگنی تگنی قیمت پر فروخت کرکے تھانوں کچہریوں کے قواعد و ضوابط کا منہ چڑا رہے ہیں اس لا ینحل مسئلے کا حل کیا ہو سرکاری افسران بھی حیران وپریشان ہیں مگر عوام کا خون سود خور سرمایہ دار طبقات نچوڑتے جا رہے ہیں اور حکمران ان کے خلاف کاروائی اس لیے نہیں کر رہے کہ ایسے زخیرہ اندوز افراد حکومتی بنچوں پر خود بیٹھے ہیں یا پھر یہ ان کے رشتہ دار دوست احباب وغیرہ ہیں صرف اور صرف حل یہی ہے کہ سرکار بھرپور کاروائی کرے اور چند ایک زخیرہ اندوزوں سٹاکسٹوں اور سبزی و فروٹ منڈیوں میں مہنگے داموں خوردنی اشیاء لا کر بیچنے والوں کو شہر وں کے مشہور چوکوں پر مرغا بنائے چھترول کرے اور ایسے اقدامات کی خوب تشہیر کی جائے تاکہ دیگر مفاد پرست طبقات ایسی حرکتوں سے باز آجائیں یا اپنی خفیہ کمین گاہوں یا بلوں میں گھس جائیں اور لوگوں کی مہنگائی کے جن سے جان چھوٹ جائے۔