تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی روزِ اول سے کائنات کا ذرہ ذرہ ‘چپہ چپہ ‘جاندار بے جان ، خالقِ ارض و سما کی ہر تخلیق عشقِ محمد ۖ میں گرفتار ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ خالقِ کائنات خود نبی کریم ۖ کے عشق میں مبتلا ہیں ۔یہی بات ہمارے باپ حضرت آدم کو بھی بتا دی گئی ۔ ہمارے باپ حضرت آدم نے واضح طور پر اپنے بیٹے حضرت شیث کو سمجھا دی کہ اگر تو اپنی زندگی آغاز سے انتہا تک کامیاب دیکھنا چاہتا ہے تو ذکرِ الٰہی کے ساتھ صلو ةالرسول میں بھی مشغول رہنا کیونکہ یہ ایسی کلید ِاعظم ہے جس سے خالقِ کائنات کی رحمت کا دروازہ خود بخود کھل جا تا ہے ۔فرمانِ الہی ہے ۔ اے پیارے اگر میں تمھیں پیدا نہ کرتا تو سارے جہاں کو پیدا نہ کرتا ۔ یعنی اگر میرے اظہار ِ عشق کے رو برو تیری ذات مقدس نہ ہوتی تو میں اِس افلاک کو کبھی وجود نہ بخشتا ۔ اِس لیے نبی کریم ۖ کو خدا تعالی نے انبیا ئے کرام سے اپنے محبوب ۖ کو بر گزیدہ بنایا۔رب ذولجلال نے جب تمام ارواح کو اکٹھا کیا تو ان سب ارواح سے اپنی وحدانیت کا اقرار لیا پھر ان سے مخاطب ہو کر فرمایا اگر تم میرے محبوب ۖ کا زمانہ پا تو دل و جان سے ان کی مدد کر نا ان پر ایمان لانا ۔ خالقِ ارض و سما کے اِس حکم کو تمام انبیائے کرام نے سنا اور رب و ذلجلال کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا ۔ رب کعبہ رحمن، رحیم اور کریم ہیں اِس لیے اپنے بندوں کو شیطانی حربوں سے بچانے کے لیے ہر دور میں اپنے انبیاکرام کو مبعوث فرمایا جو گمراہ انسانوں کو غلط راستوں سے ہٹا کر صراطِ مستقیم کی طرف لاتے رہے ۔ یہ تمام انبیائے کرام انسانیت کو شیطانی حربوں سے بچانے کی کوششیں کرتے رہے اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو رب العزت کی طرف بھی لانے کی کوشش کرتے رہے۔
محبتِ الہی کا درس دینے کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی فرماتے رہے ۔اے لوگوں یہ کارخانہ عالم خدائے رحمن و رحیم نے صرف اپنے محبوب ۖ کی خاطر قائم کیا ہے اگر تم اِن ۖ کا زمانہ پا تو ان پر ایمان لانا اور یہ انبیائے کرام شب و روز خالقِ ارض و سما کی بارگاہ میں درخواست گذار رہتے تھے ۔ اے اللہ تیرے محبوب ۖ کی عظمت و تو قیر اور محبت ہماری روح میں رچی بسی ہے ہم سے نبوت لے لے اور ہمیں اپنے محبوب ۖ کاامتی بنا دے ۔آج ہم مسلمان اتنی بڑی سعادت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ہم اس رسول عربی ۖ کے امتی ہیں جن کے امتی بننے کی دعائیں اللہ کے انبیا ئے کرام کرتے رہتے ہیں ۔ رب کریم نے سور الاعراف میں اپنے محبوب ۖ کی عزت و توقیر کا مطالبہ فرمایا ہے ۔تو خود اللہ تعالی کو اپنے محبوب ۖ سے کتنی محبت ہو گی یہ لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے ۔ نبی کریم ۖ بھی دیوانہ وا ر رب ذولجلال سے محبت فرماتے تھے اِسی لیے ساقی کوثر نے فرمایا اگر میں اللہ کی ذات کے بعد کسی کو خلیل بناتا تو حضرت ابوبکر کو بناتا ۔ اللہ تعالی کی محبت نبی کریم ۖ سے اتنی زیادہ ہے کہ قرآن پاک میں فرماتے ہیں وہ اللہ کو پیارے اور اللہ ان کو پیارے، رب ذولجلال نے یہ فرمایا کر اِس باہمی محبت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ پھر خالق ِ کائنات نے اِس لازوال محبت کو ارض و سما میں اور تمام عالموں میں پھیلا دیا ۔اب تمام جہانون اور عالموں کا ذرہ ذرہ اِس سے سر شار اور لبریز ہے ۔ نبی کریم ۖ ساری حیاتِ مبارکہ میں اپنے رب اور رب العزت اپنے محبوب ۖ کا ذکر بلند کرتے رہے ہیں۔
یہی خاصائے محبت و عشق بھی ہے ۔ رب ِ کائنات نے پہلے بذات ِ خود اپنے محبوب ۖ کا ذکر بلند فرمایا آپ ۖ پر درود سلام بھیجا پھر فرشتوں کا حکم دیا پھر مومنین کو ایسا کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔ شہنشاہ دو عالم ۖ نے پہلے خود اپنے رب پاک کا ذکر کیا پھر اپنے امتیوں کو یہی حکم دیا ۔ یہ وہ اصلی اور حقیقی سچائی ہے کہ جب بھی کوئی مومن نبی کریم ۖ پر درود و سلام بھیجتا ہے تو قرب الہی اور عشقِ الہی کا مسافر اور بندہ بن جاتا ہے اور جو خدا تعالی کا ذکر کرتا ہے وہ شافع محشر ۖ کا امتی بن جاتا ہے ۔اسی لیے تلاش حق کے تمام مسافر پہلے شہنشاہِ دو عالم کی غلامی اور عشق کی منزلیں طے کرتے ہیں جیسے جیسے عشقِ رسول ۖ کا رنگ زیادہ چڑھتا ہے ویسے ویسے عاشقِ رسول ۖ قربِ الہی کی منزلیں بھی سر کرتا چلا جا تا ہے ۔یعنی جتنی زیادہ اطاعت اور عشق ِ رسول ۖ ہوتا جائے گا اتنا ہی سالک رب العزت کی بارگا ہ میں بلند مقامات پر فائز ہو تا جاتا ہے۔
کبھی بھی سالک عشقِ رسول ۖ اور خدائے پاک کے عشق کے نور میں شب و روز گزارتا ہے اتنا ہی اس کی کثافت لطافت میں ڈھلتی جاتی ہے ۔ مجازی عشق میں عاشق اپنے معشوق کی رضا کے لیے دن رات وہی حرکتیں کرتاہے جومحبوب کو پسند ہوں عاشق کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ اس کے محبوب کو کوئی تکلیف نہ پہنچے عاشق اپنے معشوق کے آرام کا خاص خیال رکھتا ہے اس کی عزت اور خوشی کے لیے اپنی جان سے بھی کھیل جاتا ہے۔
محترم قارئین یہ تو دنیا کے عاشقوں کا حال ہے اب تصور کریں جہاں ربِ کائنات خود محب ہو اور باعث ِ تخلیقِ کائنات اس کا محبوب ۖ ہو تو اس کی شان عزت و احترام اور ادب اس کی اطاعت و اتباع اور اس پر ایمان کا حکم دیا اپنے محبوب ۖ کی مدد اور احترام کے لیے عالم ارواح میں قیامت تک آنے والی ارواح سے وعدہ لیا ان ارواح میں تمام لوگ ، اولیا کرام ، انبیا و مرسلین اغواث و اقطاب مجتہد ، مفسرین ، محدثین نسل انسانی کے بہترین دماغ اور باصلاحیت لوگوں سے عہد لیا اور خدا پاک خود گواہ بن گئے ۔(سورہ آل عمران) ترجمہ اور یا دکرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمھارے پاس وہ رسول کہ تمھاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کہوں تم نے اقرار کیا اور اس پر بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیافرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہو جائو اور میں آپ تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔انبیا کرام نے اِس حق کو خوب ادا کیا اپنی اپنی امتوں کو ہدایت کی کہ جب انہیں حضرت محمد ۖ کی زیارت ہو ان پر ایمان لا نا اور ادب سے ان کی اطاعت اور ادب کرنا ۔ انبیا کرام کے اقرار کے بعد رب تعالی فرماتے ہیں شاہد رہو میں بھی شاہدین سے ہوں۔ حضرت علی نے فرمایا ۔ اللہ تعالی نے حضرت آدم اور ان کے بعد جسے بھی نبوت عطا کی ان سے محمد سید الانبیا ۖ کی نسبت عہد لیا کہ اگر ان کی حیات میں سید عالم ۖ مبعوث ہوں تو آپ ۖ پر ایمان لائیں اور آپ ۖ کی نصرت کریں۔