تحریر : محمد عبداللہ پاکستان دنیا کا ایسا عجیب و غریب ملک ہے کہ یہاں پر بھانڈ ،میراثی اور گویے قانون ساز اسمبلیوں میں بیٹھے اپنی عیاشیوں کے ساتھ پاکستان کی بدحالی کا نوحہ لکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ اہل علم، اسکالرز، ماہرین اور علمائے دین روزی روٹی کے اک اک لقمے کے لیے خوار ہو رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ کسی کام کے اہل ہوتے ہیں اور وہ پاکستان کی تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود کے لیے اپنی کوششیں اور کاوشیں صرف کر رہے ہوتے ہیں مگر پارلیمنٹ کی شاخوں پر بیٹھے الوؤں کو بھلا پاکستان کا دفاع، تعمیر و ترقی سے کیا غرض وہ تو ہر شاخ پر بیٹھے بربادی گلشن کے درپے ہوتے ہیں۔ انہی کاٹھ کے الوؤں میں سے ایک کردار اس کا ہے جس کی میرٹھ کی قینچی کی طرح چلتی زبان گاؤں کی پھپھے کٹنی ماسی کی طرح جب بھی کچھ اگلے گی تو فساد ہی ڈالے گی۔
حضرت کا تعلق اس شہر سے ہے جس شہر نے ملت اسلامیہ کو مشاہیر سے نوازا ہے مگر خواجہ صاحب تواپنی حماقتوں کے ساتھ شاید شہر اقبال کی لٹیا ڈبونے پر ہی تلے بیٹھے ہیں۔جناب کی قابلیت ، لیاقت اور معاملہ فہمی ایسی کہ سیالکوٹ میں شاید ان کو کوئی کلرک بھی نہ رکھے مگر اپنی ریشہ دوانیوں اور چاپلوسیوں سے اس وقت ملک کے اعلیٰ ترین عہدے وزیر خارجہ کے منصب پر فائض ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ چور چوری سے جائے مگر عادت سے نہ جائے، کچھ ایسا ہی حال ان صاحب کا ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں اپنی بدبودار زبان سے اکثر تعفن پھیلا کر اپنی قابلیت کی تشہیر کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی یہ حضرت دفاع وطن کی ضامن افواج پاکستان پر زبان دراز کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی اپنی زبان کے ساتھ سالمیت مملکت خداداد کی چادر کو کھینچتے دکھائی دیتے ہیں۔ موصوف سیر سپاٹے کے بھی خاصے شوقین ہیں اور ان کے اکثر متنازع بیانات بھی دیار غیر (یہاں غیر عوام کے لیے ہے) میں ہی بیٹھ کر داغے جاتے ہیں وجہ صاف ظاہر ہے کہ محلے کا شرارتی بچہ نانی یا دادی کی گود میں بیٹھ کر ہی دوسروں کے منہ چڑاتا اور پگڑیاں اچھالتا ہے۔
کل بھی یہ صاحب نیویارک میں ایک سوسائٹی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے بہکتے بہکتے مرد مجاہد حافظ سعید کے بارے میں یہ انکشاف کر رہے تھے کہ حافظ سعید پاکستان کے لیے بوجھ ہیں اور اس بوجھ سے چھٹکارا پانے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ حافظ سعید جیسے مرد درویش کی بات کرنے سے قبل ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان پر کیا کیا چیز بوجھ ہے اور اس سے بھی قبل ایک واقع آپ کے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کے خلیفہ اول جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے کچھ لمحات قبل ارشاد فرمایا” بیت المال کے اس وظیفے کا حساب کیا جائے جو میں نے آج تک وصول کیے ہے۔ حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کل 6 ہزار درہم دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا” میری زمین فروخت کرکے یہ تمام رقم ادا کی جائے۔ اسی وقت زمین فروخت کی گئی اور یارغار کے ایک ایک بال کو بیت المال کے کے بار سے سبکدوش کیا گیا۔ جب یہ ادائیگی ہوچکی تو فرمانے لگے تحقیق کی جائے کہ خلافت قبول کرنے کے بعد میرے مال میں اضافہ ہوا ہے ۔ معلوم ہوا کہ پہلا اضافہ ایک حبشی غلام ہے، دوسرا اضافہ ایک اونٹنی ہے جو پانی لاتی ہے،تیسرا اضافہ ایک سوا روپے کی چادر کا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ میری وفات کے بعد یہ چیزیں خلیفی وقت کے پاس پہنچا دی جائیں۔ رحلت مبارک کے بعد جب یہ سامان خلیفہ دوم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے آیا تو آپ رو پڑے اور فرمانے لگےاے ابوبکررضی اللہ عنہ تم اپنے جانشینوں کے واسطے بہت دشوار کام کرگئے ہو۔
جبکہ ہمارے پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں بھوک و افلاس کا رقص ہوتا ہو ، جہاںپیدا ہونے والے نومولود بچوں کا وزن قحط و افلاس کی وجہ سے ایک ایک پاؤ ہو۔ جہاں کی غریب عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو اس ملک کے وزراء کے انداز شاہانہ اور انکی بڑھتی ہوئی دولتوں کا چھوٹا سا تحمینہ لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پاکستان پر بوجھ کون ہے۔
ہم زیادہ پرانی بات نہیں کرتے کل غریب ملک کے امیر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار عدالت میں پیش ہوئے تو قوم کو پتا چلا کہ حضرت کی آمدنی ایک قلیل مدت میں 91 فیصد بڑھی ہے جبکہ ذرائع آمدن بھی کچھ خاص نہیں ہے۔ یہ تو بھلا ہو ان پانامہ لیکس والوں کا کہ قوم کو پتا چل گیا کہ غریب قوم کا پیسا کہاں کہاں لگتا رہا ہے۔ وگرنہ تو اپنی اور اپنے ملک کی غربت اور تنگی داماں پر حسرتیں بہاتے ہی عمر نکل جاتی۔ اب ذرا صدیق اکبر کے حالیہ جانشینوں کے انداز و اطوار بھی ملاحضہ کریں۔ ہمارے غریب ملک کے صدر کی تنخواہ 16 لاکھ روپے ماہانہ ہے (بولتا پھر بھی کچھ نہیں) جبکہ ایوان صدر کا بجٹ 95 کروڑ 96 لاکھ روپے ہے۔
ایوان صدر کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا تخمینہ 65 کروڑ 33 لاکھ روپے لگایا جا رہا ہے۔ ایوان صدر کی تزئین آرائیش کے لیے دو کروڑ روپے لگائے جاتے ہیں۔ ممنون حسین کے صوابدیدی فنڈز کیلئے 10 لاکھ روپے، ایوان صدر کے باغیچوں کیلئے 4 کروڑ13 لاکھ روپے،گاڑیوں کیلئے 3 کروڑ 97 لاکھ روپے، ڈسپنسری کیلئے 2 کروڑ 12 لاکھ روپے جبکہ صدر مملکت کے بیرون ممالک دوروں کیلئے 1کروڑ32 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم کے دفتر کا بجٹ 91 کروڑ 67 لاکھ روپے سالانہ کر دیا گیا ہے۔ ایسا ملک کیسے مزید غریب نہ ہو ، جہاں کے حکمراں عیش و عشرت پر اربوں روپے خرچ کریں۔ ہمارے ملک کے سابقہ نااہل وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران 75 غیر ملکی دورے کیے ان میں سب سے زیادہ لندن کے 21 دورے کیے جن میں ایک سرکاری جبکہ باقی سب نجی تھے۔ جن میں سے انیس دوروں کا خرچہ وزارت خارجہ نے برداشت کیا۔ نواز شریف نے 264 دن ملک سے باہر گزارے اور ان کے ان دوروں پر 70 کروڑ سے زائد کا خرچہ آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)