تحریر : پروفیسر اویس خالد محرم الحرام کا بابرکت مہینہ مقدس شہادتوں کی عظیم داستان لئے ہوئے پھر سے آن پہنچا ہے۔غمِ حسین کے تذکروں پر پڑی ہوئی کارزارِ دہر کی دھول چھَٹ رہی ہے۔میدانِ کربلا سے منسلک ہر روایت قلوب و اذہان میں پھر سے تازہ ہو رہی ہے۔ذکرِ شبیر و آلِ شبیر کی محافل و مجالس پوری آب و تاب سے رواں دواں ہیں اور فضائے خشک و تر ذکرِ آلِ رسوۖل کی خوشبوسے مہک رہی ہے۔واعظ و ذاکر اپنی اپنی استعداد کے مطابق دنیا کی زبانوں میں موجود محدود لفظوں کا سہارا لے کر بارگاہِ مقدس میں اپنی اپنی حاضریاں لگوا رہے ہیں۔خطبات و بیانات میں سرزمینِ کربل کے دل سوز واقعات سن کر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ خورشید ِمحرم کا اعجاز ہے کہ اس کے طلوع ہوتے ہی مقررین و ذاکرین کے لب و لہجے اور سامعین کی طبیعتیں سوز و گداز میں گندھ جاتی ہیں۔فرات کا پانی چودہ سو سال بعد بھی چشم بنی آدم اور اہلِ محبت کی آنکھوں سے ٹپک رہا ہے اور اپنی محرومی پر نوحہ کناں ہے۔راقم نے لکھا تھا:۔
سب کو سب کی قسمت کا سب مل گیا پانی لبِ حسین سے بس محروم رہ گیا
اس میں کوئی شک نہیں کہ آل ِرسولۖ تو کوفیوں کو آگ سے بچانے آئے تھے مگر ان کوفیوں نے اپنے معصوم محسنوں کے خیموں کو ہی آگ لگا دی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یزید جس دستِ حسین کے حصول کا بیعت کے زریعے متمنی تھا، بعد ازشہادت ِامامِ حسین بھی وہ دست ِمقدس حاصل نہ کر سکا۔ اس میں بھی کسی شک کی گنجایش نہیں کہ سرِ حسین نے نیزے پہ چڑھ کر تلاوت قرآن سے حقانیت اسلام پر وہ مہرِ صداقت ثبت کی کہ اب قیامت تک کوئی اسے جھٹلا نہیں سکے گا۔ اس میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ سرِحسین کو جب نیزے پر چڑھا کر بطرفِ شام دربارِ یزیدلے جایا جا رہا تھا تو وہ سرِ حسین جسے یزید جھکانا چاہتا تھا،شہادت کے بعد بھی سب سے بلند تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت علی اصغر کی عرصہ شیر خوارگی میں اور حضرتِ علی اکبر کی وقتِ جولانی میں دی جانی والی لازوال قربانیاں رائیگاں جاتیں۔”خونِ شہیدِ عشق ” کبھی زیر زمیں نہیں رہتا۔ جس مقصد کے حصول اور حفاظت کی خاطر اہلِ تمنا اپنی جان تک لٹانے سے دریغ نہیں کرتے ،اس مقدس مقصد کی حفاظت کا اہتمام خود خدائے بزرگ و برتراپنی حکمت کے ذمے لگا دیتا ہے۔معرکہ کربلا میں اگرچہ خانوادہ رسول ۖ کی حیاتِ با صفا جانِ آفرین کے سپرد ہوئی لیکن اسلام (جسے ہر حال میں زندہ رہنا ہے)ایسے زندہ ہوا کہ اب قیامت تک دوسروں کو حیات جاوداں عطا کرتا رہے گا۔
فلسفہ شہادت امام حسین میں انسانیت کے لئے حکمتوں سے لبریز درس ِ بقا پوشیدہ ہے۔اور یہ حکمت ہر دور میں اس ملت بیضا کی متلاشی ہے جو اس فلسفہ میں سے آبِ حیات کے جام بھرے اور اسے پی کر دنیا کی امامت کا فریضہ سر انجام دے۔یہ عظیم شہادت تقاضا کرتی ہے کہ جس دور میں بھی کسی یزید کو پائیں تو اس کے سامنے حسین عالی مرتبت کے انکار کی طرح ڈٹ جائیں۔عَلم حق بلند کریں اور جاء الحق کا نعرہ لگاتے ہوتے یزیدی صفوں میں طوفان برپا کر دیں۔محبوب کائینات پر اگر کوئی کوڑا پھینکتا تو آپۖ اس کا گھر صاف کرتے اور اس کی عیادت و تیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑتے ۔لیکن اگر کوئی زکوة کی ادائیگی سے انکاری ہوتا توعضب مصطفی ۖ حرکت میں آ جاتی۔اس سے عیاں ہوتا ہے کہ دین کو پھیلانے کا طریقہ اور ہے اور دین کو بچانے کا طریقہ اور ہے۔جب دین پھیلایا جائے تو پتھر کھا کربھی دعائیں دینے کا حکم ہے لیکن دین جب پھیل چکا ہو اور اس کی ناموس و حُرمت کو کوئی للکارے تو پھر دشمن کو نست و نابود کرنے کے سوا کوئی چارا نہیں رہتا۔خواہ اس میں اپنا اور اپنی آل کا سر ہی کیوں نہ کٹوانا پڑ جائے۔بقول مصحفی :۔
دی جان ایسے ہوش سے اپنی کہ خلق کو جینے کا میرے تادم آخر یقیں رہا امامِ عالی مقام نے اپنے نانا جانۖ کی امت کو صبر کا ایسا مفہوم سمجھایا کہ اب کسی شارع،مفکر اور مفسر کی تشریح و وضاحت کی حاجت نہیں رہی۔ بقول راقم:۔ نیزے پہ مسکرائے، کنبہ لٹا کے سارا پہنچی معراج صبر کو یوں خاکِ کربلا
کتابِ ہدیٰ کے فرمان کے مطابق شہید کی حیات بعد ازممات میں کسی شبہ کی گنجایش نہیں ہے۔ چودہ صدیاں گذرنے کے بعد آج بھی گھر گھر،نگر نگر،گلی گلی،کوچہ کوچہ اور بستی بستی امامِ عالی مقام کی قربانی سے جلنے والے چراغ کی روشنیوں سے جگمگا رہی ہے اور حق کا راستہ متعین کر کے امت مسلمہ کے لئے ہدایت کا سامان میسر ہو رہا ہے۔امام عالی مقام کے ذکر کی برکت کا یہ عالم ہے کہ وجود سرور و لطف سے بھر جاتا ہے۔آنکھیں ادب سے جھک کر تعظیم کے بوسے لینے لگتی ہیںدل نور ایمانی سے منور ہو کر تابش و چمک میں ماہِ چہار دہم کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔اسم مبارک کی تلاوت سے ہی وہ جذب و مستی،کیف و سروراور وجد و فریفتگی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ ظاہر و باطن مہکنے لگتے ہیں تو اندازہ کیجیے کہ خود آپ کے وجود مقدس کا عالم کیا ہو گا؟آپ کی آل مبارک کی تطہیر و عترت کا عالم کیا ہو گا؟آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عظیم شہادت کے تمام فیوض و برکات کو سمیٹنے کی غرض سے خانقاہوں سے نکل کر رسمِ شبیری ادا کی جائے۔حق کی منادی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے کفر و باطل کی عمارت کو زمیں بوس کیا جائے،کفر کے ستون ہلا دیے جائیں۔اعلانِ حق سے ان کے ایوانوں میں زلزلے برپا کر دیے جائیں۔ یزیدیت کے گروہ باطل سے جڑے لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دینا چاہیے کہ فلسفہ حسین اور للکارِ حسین ،وجودِ حسین اور مقصدِ حسین کی طرح آج بھی زندہ و جاوید ہے اور غلامانِ حسین حق کی حفاظت کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں،کیونکہ ان غلاموں نے اپنے امام سے جو درس لیا ہے ،اس کی تکمیل کے لئے سر بکفن ہو کر یہ ہمہ وقت تیار ہیں۔