تحریر : شاہ بانو میر ان کی ذات میں توکل باللہ کا عملی نمونہ جیل کے منتظمین دیکھتے تھے٬آپ کے چہرے پے گہرا اطمینان اور سکون موجزن رہتا٬ جو صرف متوکلین کے چہروں سے جھلکتا ہے٬ اس قید خانے میں ابن القیم ان کے بیٹے اور بھائی عبد الرحٰمن آخر تک آپکے ساتھ رہے ٬ اس طویل قید میں آپ کے کردار٬اخلاقیات٬ صبر شکر٬ کے اعلیٰ مراتب دیکھنے والوں نے دیکھے٬ جس قید کو لوگ بدنامی کا ذریعہ سمجھتے تھے آپ اس قید کو نعمت سمجھتے تھے٬ آپ کے ساتھیوں نے آپکو کہتے سنا “” اس نعمت پر (قید) قلعے کو سونے سے بھر کے خرچ یعنی صدقہ کروں تو بھی کافی نہیں”” اتنا زیادہ شکر ادا کرتے تھے۔
یہ لوگ جو میرے لئے نیکی کا سبب بنے ہیں میں ان کا بدلہ نہیں دے سکتا””” ایک بار کہنے لگے “”” کہ اصل میں تو قیدی وہ ہے جس کا دل اپنے اللہ سے دور ہے””” جس کی خواہش نے اسے قید کیا ہو وہ ہے قیدی ٬ “””اللہ کا ذکر جس نے پیچھے کر دیا ہو””” جب قلعے کے اندر داخل ہوئے تو یہ آیت پڑہی “”ان کے درمیان ایک دیوار بنا دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا او دیوار کے دوسری طرف رحمت اور راحت ہے”” اسکی وجہ ان کی سوچ تھی وہ بخوبی جانتے تھے کہ اللہ نے نبیوں کی سنت اور حضرت یوسفؑ کی طرح اس قید میں ان کیلیۓ علم کے عمل کے اور توکل کے موقعے فراہم کئے ہیں۔
دوران اسیری ان کا قرآن مجید کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہوا ٬ اس کے ایسے معنی ان پر واضح ہوئے جو اس سے پہلے کسی عالم پر منکشف نہیں ہوئے تھے ٬ بہت سے ہم عصر علماء ان جیسا علم اور گفتگو کی خواہش کرتے تھے آپ کہتے کہ “””قرآن کے معنی سمجھنے کے علاوہ میں نے جن باتوں میں وقت ضائع کیا اس کا دکھ ہے””” وہاں موجود شیخ نے کہا کہ ان جیسا انسان کہیں نہیں دیکھا کہ انہیں دل ہلا دینے والی خبریں پہنچائیں جاتیں ٬ جنہیں سن کر ہم ڈر جاتے پریشان ہو جاتے مگر انہیں مطلق پریشان ہوتے نہیں دیکھا٬ ان کےاندر ہمیشہ سکون دیکھا ٬ جیل میں ہونے کے باوجود سب سے زیادہ فراخدل تھے اور خوش رہتے تھے۔
ان کا نفس اور دل سب سے زیادہ خوش تھا٬ نعمتوں کی رونق ان کے چہرے سے دکھائے دیتی تھی٬ ساتھیوں کا کہنا تھا کہ ہم افواہوں سے بد گمان ہوکر پریشان ہو جاتے اور آپ کے پاس جاتے مگر آپکو دیکھنے اور باتیں سننے کے بعد مکمل شرح صدر سے اٹھتے ٬ ان کی مثال ویسے ہی دی جاتی تھی جیسے ایک صحابی تھے کھجوریں کھاتے کھاتے چھوڑ دیں کہ مجھے احد کے پار جنت کی خوشبو آ رہی ہے٬ جب انسان کسی چیز کو مکمل ڈوب کر حاصل کرتا ہے تب اسے اس میں لذت اور لطف محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے جذب میں کھو کر بیرونی مصائب کو بھول جاتا ہے٬ انہیں گہرا اطمینان بھروسہ تھا اپنے اللہ پر مکمل تقویٰ اور یقین تھا کہ ان کا “”ایمان”” درست ہے۔
ورنہ تو قید میں کمزور انسانوں کی طرح گھبرا جاتے یا مخالفین کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے اور آزاد ہو جاتے مگر آخری سانس تک اپنے علم پر اللہ کے بھروسے ڈٹے رہے خالص مومن کی طرح ٬ جن کو قرآن اور اسلام کی تعلیمات پر مکمل یقین ہوتا ہے٬ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ “” فِقہ”” میں آگے جاتے تو پانچویں امام یہ ہوتے ٬ مگر انہوں نے قرآن پر مکمل توجہ دی اسے اپنا محور و مرکز بنایا ابن قیم کہتے ہیں کہ آپ کو کہتے سنا کہ ٬٬ دنیا میں ایک جنت ہے جو انسان اس دنیا کی اس جنت میں داخل نہیں ہوگا تو وہ اُس دوسری جنت میں بھی نہیں داخل ہوگا ٬٬ میرے دشمن میرا کیا بگاڑ لیں گےمیری جنت تو میرے ساتھ ہے٬ میرا قید میں رہنا ا للہ کے ساتھ قربت کی گھڑیاں ہیں٬(سبحان اللہ) میرا قتل میری شہادت ہے٬اور میری قید میری سیاحت ہے۔
آپ کے ساتھی بتاتے ہیں جو آپ کے شاگرد بھی تھے کہ آپ کثرت سے یہ دعا مانگتے تھے ٬ “”” اے اللہ تو میری مدد فرما اپنا ذکر کرنے اور شکر کرنے پر اور اپنی عبادت کرنے پر “” ہمیں بھی عاجز ہو کر دعا کرنی چاہیے کہ ہم ہر عبادت مثبت سوچ کے ساتھ اخلاص والی ہو نہ کہ عادت ہو٬ امام ابن تیمیہ علم کے عملی پیکر تھے٬ جیل کے آخری ایام زیادہ تر وقت قرآن کے ذکر میں گزارتے٬ آپ کے بھائی کہتے ہیں ہم دونوں نے قرآن کے 80 دور کئے جب 81 واں دور تھا “”سورت القمر”” کی آخری آیت پر ان کا انتقال ہوگیا٬
قلعے کے مؤذن نے قلعے پر چڑھ کر بآواز بلند سب کو اطلاع دی۔ جیسے ہی جنازہ قلعے سے باہر رکھا گیا ٬ٌ خلقت جیسے امُڈ کر آئی لوگ بیتابی سے دیوانہ وار آئے 3لاکھ لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی دمشق کی تاریخ میں اتنا بڑا جنازہ اس وقت تک کسی کا نہ ہوا٬ حالانکہ آپ قید تھے مگر یہ سچائی کا اثر تھا مخالفین نے ان پر دینی اعتبار سے بے شمار الزامات لگائے طویل قید میں رہے ٬ مگر دین کی سچائی کا اپنا اثر ہوتا ہے جو ان کی وفات پر لوگوں کی کثیر تعداد سے ظاہر ہوا ٬ آپکی وفات کی خبر بجلی کی طرح دنیا کے کئی ممالک خصوصا چین٬ یمن تک ان کے ا نتقال کی خبر پہنچی٬ جب ذرائع نشر و اشاعت محدود تھے٬ اس زمانے میں خبر اتنی دور تک پہنچی بہت حیرت کی بات ہے٬ چین میں جمعہ والے دن اعلان ہوا کہ اہل القرآن کے ترجمان القرآن کا جنازہ ہے٬ جاری ہے۔