تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل ویسے تو بے یقینی و مایوسی کی کیفیت تو عرصہ دراز سے ہی پاکستان میں موجود ہے،مگر اس کی شدت میں کمی و تیزی آتی رہی۔گزشتہ چند ماہ سے تو جیسے مایوسی و بے چینی کی فضا کا تہلکہ مچ گیا ہو یا طوفان آ گیا ہو۔پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد سے یہ تاثر پیش کیا جا رہا ہے کہ ملک اب تباہی کے دہانے پر ہے۔ہر سیاسی جماعت چہ مگوئیوں میں لگی ہوئی ہے اور طرح طرح کے تجزیے کئے جا رہے ہیں ۔کہیں آرمی پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں تو کہیں آرمی کو سازشی قرار دیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی عسکری اور دوسرے چھوٹے بڑے اداروں کو لڑانے کی سازشیں کی جا رہی ہوں۔حکومت و اپوزیشن میں کھینچا تانی تو سمجھ آتی ہے مگر یہاں تو اپوزیشن میں بھی سازشیں عروج پر ہیں کوئی متفق نہیں۔سب کے نظریات مختلف ہیں کوئی مل کر چلنے کی بات ہی نہیں کر رہا ہر طرف الزام تراشی عروج پر ہے ۔کچھ تو عدالتوں کا احترام کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
سب کے نظریات ان کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں ،جو ان کے مفادات کے مطابق وہ ٹھیک باقی سب غلط۔ایسے کیسے ملک چلے گا! کیوں لوگوں میں بھی مایوسی پھیلا رہے ہو۔بے یقینی اتنی بڑھ گئی ہے کہ عوام ووٹ دے کر بھی مطمئن نہیں۔ایسے وقت میں جہاں ہم سب کو مل بیٹھ کر دلیل سے بحث و مباحثہ کر کے مل جل کر دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے،وہیں ہم افراتفری کو فروغ دے رہے ہیں اور مایوسی و بے چینی کے تاثرات پیش کر رہے ہیں۔اللہ کے فضل سے ملک بہتری کی طرف گامزن ہے،مگر کوئی بھی شخص ماننے کو تیار ہی نہیں کہ پاکستان ماضی کی نسبت بہتر ملک بن کر سامنے آ رہا ہے۔بے یقینی کی حد دیکھئے لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک مسائل سے دب کر دشمن کے ہاتھوں تباہ ہو رہا ہے۔ورلڈ اکنامک 2017 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 133ویں نمبر سے 115پر آ گیا ہے۔چند سال پہلے دہشتگردی کے واقعات معمول کا حصہ تھے مگر اب ایسے واقعات کا خاتمہ ہوگیا ہے ہماری آرمی و انٹیلی جنس اداروں نے دہشتگردی کا جڑ سے خاتمہ کر دیا ہے۔کیا یہ ہمارے لئے شکر کا مقام نہیں؟مگر ہم ہیں کے مقام شکر کو بھی منفی رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ہر چیز میں ہر بات میں منفی پہلو ہی تلاش کرتے ہیں،اور افراتفری کی قید میں مبتلا ہو کر مایوسی و بے یقینی کو فروغ دیتے ہیں۔
ہر جگہ مایوسی کی باتیں ہوتی ہیں چاہے کوئی گلی محلہ ہو کوئی سوسائٹی ہو کوئی دکان ہو یا کوئی اور پبلک پلیس۔ایسے ایسے لوگ و نظریات کے حامی بھی ہیں جو آپ کو پل بھر میں چند منٹوں کی مسافت پر ہی یورپ کی سیر کروا کر آپکو قائل کرتے ہیں کہ پاکستانی تو بے وقوف ہیں ہمیں یورپ چلے جانا چاہئے۔آپ چند منٹ خود کو اور اپنے وطن کو کوستے ہیں ۔مگر یہ سوال آپ کی سوچوں کو جنجھوڑتا ہے کہ یہ شخص ادھر کیا کر رہا ہے ہمیں یورپ بھیجنے والا؟اگر اندازہ لگایا جائے تو اکثریت ایسے لوگوں کی ہو گی جو ہر پہلو پر منفی رنگ دیتے ہیں۔یعنی اکثریت پاکستان کی خامیوں کو آشکار کریں گے،اور بے یقینی ان کے تاثرات سے جھلکتی ہو گی۔بے یقینی کا اندازہ لگانا ہے تو دو مختلف قومی پہلو اٹھائیے اور انہیں کچھ دنوں کے وقفے کے بعد منتخب لوگوں کے سامنے پیش کیجئے ،یقین سے کہتا ہوں کہ ان پر اس قسم کی نقطہ چینی ہوگی جو شاید آپ کے بھی ذہن میں نہ آئے اس سے معاشرے میں رچی منفیت پسندی کا با خوبی اندازہ ہو جائے گا۔شاید پوری دنیا میں منفی تاثرات موجود ہوں مگر ہمارے ہاں ہمارے معاشرے میں منفیت سرائیت کر چکی ہے،جو کہ لوگوں میں پھیلی مایوسی کی علامت ہے۔آپ موجودہ دور کی محفلوں کا تجزیہ کر لیجئے آپ کو اکثریت مایوسی بھری بے یقینی کی باتیں ہی سننے کو ملیں گی جن میں منفی تاثر واضح ہوگا۔ہم لوگ اکثر سن کریا دیکھا دیکھی مایوس ہوجاتے ہیں اور ملک کو منفی نظر سے دیکھتے ہیں۔ہمارے ملک میں واقعی کئی خامیاں بھی موجود ہوں گی حکومتوں نے ہزاروں غلطیاں کی ہوں گی مگر کہیں انجانے میں ہی سہی سینکڑوں اچھے کام بھی ضرور کئے ہوں گے جو شاید عوام کو نظر نہیں آتے یا پھر بے یقینی میں میں انکو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔بات سیاست کی ہو مذہب کی ہو یا کوئی اور ہر جگہ ہم اسکا منفی پہلو تلاش کر کے اس پر نکتہ چینی شروع کر دیتے ہیں،نکتہ چینی ضرور کیجئے مگر کسی حد تک جب ہم حد سے تجاوز کرلیتے ہیں تو ادارے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں ۔پھر بات جو مرضی کر لو والی آ جاتی ہے یعنی کوئی سروکار نہیں۔عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بڑے منظم طریقے سے جانے انجانے ملک میں انتشار کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں،سوشل میڈیا واٹس ایپ پر ایسے ایسے میسجز اور ویڈیوز پھیلائی جا رہی ہیں جن سے مایوسی میں اضافہ ہو۔جعلی آفات کو وسعت دی جا رہی ہے، ملک ک59و اندھیری چھاؤنی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ہماری خارجہ پالیسی تو شروع سے ہی زیر بحث ہے ۔مگر ہمارے نئے وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی منفی مثبت تجزیوں میں زیر بحث ہیں۔ایسے ایسے تجزیے پڑھ چکا ہوں جن سے یہ تاثر نکلتا ہے جیسے ملک میں کوئی بڑا تصادم کرانے کی تیاری ہو یا افراتفری پھیلانے کی۔ایسا لگ رہا کہ ملک میں سول عسکری اور مذہبی انتشار کی کوشش کی جا رہی ہو۔خواجہ آصف کے کالعدم تنظیموں کے بارے بیان کو وسعت دی جارہی ہے اور اسے منفی رنگ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جا رہا۔جسکا فائدہ بھی ضرور دشمن کو ہی پہنچ رہا ہے۔ہمیں منفی رنگ دینے سے پہلے یہ بھی زیر غور رکھنا چاہئے کہ ہمارے اپنے دوست چین نے بھی ہمیں اس ضمن میں ڈو مور کا مطالبہ کیا تھا،ایسے میں پاکستان پر عالمی دباؤ کی نوعیت کو بھی جانئے۔رہی بات خواجہ آصف کی انہیں اپنی خارجہ پالیسی کے ساتھ اپنے داخلی معاملات کے بارے میں بھی علم ہونا چاہئے۔حافظ سعید کے حامیوں کی کثیر تعداد پاکستان میں موجود ہے اور ان کے فلاحی کاموں کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا۔ہمیں خواجہ صاحب کی وہ باتیں بھی سننی چاہئے جن میں انہوں نے بھارت کو خطے کا دہشتگرد ملک ٹھہرایا اور پاکستانی مؤقف کو دیدہ دلیری سے پیش کیا۔موجودہ بے یقینی کی فضا میں ہمیں یکجا ہونے کی ضرورت ہے،جب سازشی طاقتور اور سرگرم عمل ہوں تو سب کچھ بھلا کر مل جل کر انکا مقابلہ کرنا چاہئے نہ کہ آپس میں لڑائی جھگڑوں سے دشمن کو فائدہ پہنچانا چاہئے۔حکومت کا فرض بنتا ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایک پیج پر اکٹھا کر کے اعتماد میں لے اور یہ تاثر ختم کرے کے کوئی ادارہ سازش کر رہا ہے۔آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سوشل میڈیا پر بیٹھ کر لوگوں کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے رہیں اور اس کا نقصان ہمارے وطن کو پہنچے،ہم سب کو بھی مایوسی کی باتوں کو پروان چڑھانے سے باز آنا چاہئے اور سچے پاکستانی بن کر مثبت رویے اور سوچ کو فروغ دینا چاہئے۔