تحریر : طارق حسین بٹ شان ایک وقت تھا کہ حلقہ این اے ١٢٠ پی پی پی کا گھڑھ تصور ہوتا تھا۔ذولفقار علی بھٹو نے دسمبر ١٩٧٠ میں اسی حلقے سے چو ہتر ہزار سے زائد ووٹ لے کر فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کو شکست سے ہمکنار کیا تھا۔گویا کہ ایک غیر لاہوری نے ایک پکے لاہوری کو اس کے اپنے آبائی گھر میں شکستِ فاش دی تھی لہذا ثابت ہوا کہ کسی مخصوص علاقے سے تعلق ہونا ، کوئی خاص زبان بولنا یا، کسی خاص برادری کا فرد ہونا،اور پھر مقامی اور غیر مقامی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ذولفقار علی بھٹو تو سندھ کے ایک دور افتادہ شہر لاڑکانہ کے باسی تھے لہذ بادی النظر میں لاہوریوں سے ان کا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تھا؟یہ دونوں شہر تو ایک دوسرے سے کئی سو میلوں کی دوری پر ہیں لیکن اس کے باوجود زندہ دلانِ ِ لاہور نے دور افتادہ شہر لاڑکانہ کے ایک ذہین و فطین باسی کو انسانی حرمت کی آواز بلند کرنے پر اپنی بے پایاں محبت کا مرکز بنایا اور اس کی محبت کی سچائی کی خاطر اپنی پیٹھوں پر جنرل ضیا الحق کی ننگی آمریت میں برسائے گئے کوڑوں سے ایسے چاند ستارے بنائے جن کی چمک کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔یہ لیڈر شپ سے محبت کی ایسی دل آویز داستان ہے جسے کوتاہ نگاہ اور کم ظرف انسان کبھی سمجھ نہیں سکتے یونکہ وہ محبت کی چاشنی اور گہرائی سے نابلد ہوتے ہیں۔
وہ سدا اقتدار اور مفادات کا کھیل سمجھتے ہیں لہذا محبت میں خود سپردگی کا فلسفہ ان کے ذہنِ نارسا سے بالا تر ہوتا ہے لیڈر شپ سے بے لوث محبت جب دل میں گھر کر جاتی ہے تو پھر نہ آمریت کا جبر آڑے آتا ہے اور نہ جیلوں کی صعوبتیں سدِ راہ بنتی ہیں۔انسان اپنے قائد کی محبت میں دیوانہ وار اس مزل اور ہدف کی جانب کشاں کشاں بڑھتا چلا جاتا ہے جس کا تعین اس کے قائد نے کر دیا ہوتا ہے۔قیامِ پاکستان کی تحریک میں اپنے زندہ بیٹوں کی قربانی دینے والے کون تھے؟کون تھے جھنوں نے قائد کے ایک اشارے پر آگ اور خون کا دریا عبور کیا تھا؟ نادانو گوشِ ہوش سے ان شہداء کی آوازیں سنو تو شائد جان پائو کہ لیڈر شپ کا مقام کیا ہوتا ہے؟ذولفقار علی بھٹو کے مدِ مقابل قسمت آزمائی کرنے والے ڈاکٹر جاوید اقبال کوئی معمولی انسان نہیں تھے بلکہ وہ دنیائے ادب کی سب سے عظیم شخصیت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے فرزندِ ارجمند تھے لیکن ذولفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت کے سامنے فرزندِ اقبال بھی بے بس ہو گئے تھے اور انھیں اپنے ہی گھر میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔لوگ علا مہ اقبال سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لیکن اس وقت ذولفقار علی بھٹو کی محبت، وارفتگی اور مقبولیت کے سامنے وہ محبت بھی کمزور پڑ گئی تھی۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ذولفقار علی بھٹو خود کو علامہ اقبال کا روحانی بیٹا کہا کرتے تھے اور دوسرے وہ اقبالی فکر کا جیتا جاگتا پیکر تھے۔
ذولفقار علی بھٹو نے اپنے سارے نعرے علامہ اقبال کی شاعری سے مستعار لئے تھے ۔ اب یہی حلقہ میاں محد نواز شریف کاگھڑھ مانا جاتا ہے۔دنیا کا کوئی گھڑھ کسی جما عت کا سدا گھڑھ نہیں ہوتا اگر ایسا ہوتا تو پی پی پی حلقہ این اے ١٢٠ سے سدا جیتتی رہتی ۔گھڑھ ہمیشہ عوامی مزاج اور محبت کا مرہونِ منت ہو تا ہے۔،۔ ذولفقار علی بھٹو لاڑکانہ کی جس نشست سے منتخب ہو ئے تھے ان کے اپنے والد سر شاہنواز بھٹو اسی نشست سے ١٩٣٧ کا الیکشن ہار گئے تھے۔مسز اندرا گاندھی خود نہرو خاندان کی امیٹھی والی آبائی نشست جے پرکاش نرائن سے ہار گئی تھیں ۔سندھ کے مردِ آہن ایوب کھوڑو ذولفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت کے سامنے خش و خاشاک کی طرح بہہ گئے تھے ۔بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے اس حلقہ سے کئی دفعہ الیکشن جیتا ہے اور سترہ ستمبر کو ان کی شریکِ حیات بیگم کلثوم نواز نے اس حلقے سے ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دے کر نئی تاریخ رقم کر دی ہے ۔کوئی حلقہ کسی کا حلقہ نہیں ہوتا بلکہ وہ عوام کا حلقہ ہوتا ہے اور این اے ١٢٠کو بھی اس سے کوئی استثنی نہیں ہے ۔ ٢٨ جولائی کے تاریخی فیصلے کے بعد بیگم کلثوم نواز کا جیتنا کسی معجزے سے کے کم نہیں تھا۔ایک نا اہل سیاستدان کا جسے اسٹیبلشمنٹ نے رد کر دیا ہو اور جسے عدالت نے مجرم بنا کر پارلیمنٹ سے بے دخل کر دیا ہو عوامی عدالت سے سر خرو ہونا غیر معمولی بات ہے۔اس انتخاب سے ثابت ہوا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سیاسی معاملات پر کوئی اثر نہیں رکھتا ۔ لیکن اس کے معنی یہ کہیں بھی نہیں ہیں کہ کرپٹ مافیا کو کرپشن ، قومی دولت لوٹنے او ر ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھٹی دے دی جائے۔
ہر شخص کو قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چائیے اور اس میں بشمول وزیرِ عظم کسی کو بھی استثنی نہیں ہونا چائیے لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ اپنی انا کی تسکین اور زعمِ بر تری میں وزیرِ اعظم پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہے گی تو پھر عوام اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہوں گے ۔لیڈر شپ کسی نرسری میں نہیں اگتی بلکہ اسے جا نگسل مراحل سے گزر کر اپنی ساکھ بنانی پڑتی ہے تب کہیں ایک طویل جدو جہد کے بعد عوام ان پر اعتماد کرتے ہیں ۔ خود کو لیڈر منواناکارِ دشوار ہے جسے ہر کوئی سر انجام نہیں دے سکتا ۔بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کو پچاس سال کی طویل سیاسی جدو جہد کے بعد عوامی پذیرائی نصیب ہو ئی تھی۔میاں محمد نواز شریف کو بھی اپنا موجودہ مقام بنانے میں تیس سال سے زائد کا عرصہ لگا ہے۔عمران خان نے اپنی جماعت ١٩٩٦ میں قائم کی تھی لہذا انھیں بھی اس دشت کی خاک چھانتے ہوئے بیس سالو ں سے زائد کا عرصہ لگا ہے ور اب کہیں جا کر وہ اس مقام تک پہنچے ہیں جہاں انھیں قومی قائد مانا جا رہا ہے ۔اگر جمہوریت کو آزادانہ فضا میں پھلنے پھولنے کا موقعہ دیا گیا تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ وزارتِ عظمی سے سرفراز ہو جائیں۔،۔
کسی قوم کی خوش نصیبی ہوتی ہے کہ اس کے پاس قومی سطح کے قائدین ہوں جو قوم کو متحد رکھ سکیں۔١٩٧١ کا سب سے بڑا لمیہ یہی تھا کہ ہمارے پاس قومی سطح کا کوئی لیڈر نہیں تھا ۔شیخ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان کے لیڈر تھے جبکہ ذولفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کے لیڈر تھے ۔ اقتدارکا کوئی قابلِ عمل فارمولہ طے نہ کر سکنے کے پیچھے دونوں بازئوں میں سیاسی جماعتوں کی کمزور پوزیشن حائل تھی ۔قومی لیڈر کی عدم موجودگی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبق یہی ہے کہ اپنے قومی قائدین کو رسوا مت کرو ،ان پر غداری،کرپشن اور اقامہ جیسے مقدمات دائر کر کے انھیںقیدو بند کی نذر مت کروبلکہ ان کا احترام کرو کیونکہ قوم صرف انہی کی زبان سمجھتی ہے ۔ اس وقت میاں محمد نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دلوا یا جا چکا ہے۔عمران خان پر بھی توہینِ عدالت اور بنی گالہ کی زمین کی خریداری کی منی ٹریل کی غیر موجودگی کا مقدمہ زیرِ سماعت ہے ۔یہ دونوں مقدمات بڑ ے سنگین ہیں اور ان مقدمات میں کوئی بھی نتیجہ سامنے آسکتا ہے۔نیب سے آصف علی زرداری کی بریت کے حالیہ فیصلے کے خلاف بھی ا پیل ہائی کورٹ میں دائر ہو چکی ہے۔یہ سب اشارے ہیں اس بات کے کہ اب کسی بھی قومی قائد کی خیر نہیں ہے ۔
عسکری قوتیں اور عدلیہ مل کر تین سالہ مدت کے لئے ایک نیا عبوری سیٹ اپ لانے کی جستجو میں ہیں تا کہ نئی لیڈر شپ کو معتارف کروایا جاسکے ۔وہ حالیہ لیڈر شپ کو کھڈے لائن لگاکر اقتدار پنے مطیع، تابع فرمان اور من پسند ٹولے کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جن کی فہرستیں بھی مرتب ہو چکی ہیں لیکن انھیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دے ر ہا کیونکہ آئینِ پاکستان اس طرح کے کسی بھی عبوری سیٹ اپ کی اجازت نہیں دیتا۔اگرماورائے آئین ایسی انہونی ہوجاتی ہے تو پھر ایسے اہتمام کو عدالتی مارشل لاء کہا جائے گا اور یہ اپنا اثر کھو دے گا کیونکہ اس طرح کے تجربات ماضی میں بھی کئے گئے تھے لیکن ان کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہواتھا۔پاکستانی عوام کے دلوں سے جمہوریت کی سچی محبت کو کوئی نکال نہیں سکتا کیو نکہ اس کی تخلیق جمہوریت کا تحفہ ہے۔ہمارے سارے قائدین ہمارا قومی اثاثہ ہیں لہذا اسٹیبلشمنٹ انھیں یوں گھسیٹ گھسیٹ کر عوام کی نظروں میں ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش نہ کرے؟اسے چائیے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور سیاستدانوں کو اپنا کام کرنے دے کہ اسی میں سب کا بھلا ہے ۔ یہ قائدین نہ رہے تو پھر پاکستان کو ایک زنجیر میں کون باندھے گا؟۔کیا امورِ سلطنت چلانے کے لئے فرشتے آسمان سے اتریں گے؟۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال