تحریر : ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی ظلم کیا ہے؟: کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹاکر رکھنے اور حد سے تجاوز کرنے کو ظلم کہتے ہیں، یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے مال یا زمین پر ناجائز قبضہ کرلے تو وہ ظلم ہے کیونکہ اس میں مال یا زمین پر اصل مالک کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ اسی طرح شرک کرنا بھی ظلم ہے کیونکہ اس میں اللہ کا حق مارا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ عبادت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ کسی کو ناحق قتل کرنا، کسی کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا یا کسی کو تکلیف دینا یا کسی کا حق ادا نہ کرنا یا قدرت کے باوجود قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا بھی ظلم ہے۔
ظلم حرام ہے: قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ظلم حرام ہے، اور سات بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے اکثر کا تعلق ظلم ہی سے ہے۔ ظالم قیامت کے دن ذلت آمیز اندھیروں میں ہو گا اور ظالموں کو جہنم کی دہکتی آگ میں ڈالا جائے گا۔ چنانچہ قیامت کے دن ظالموں سے مظلوموں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کو بدلہ دلوایا جائے گا اگر اُس نے بغیر سینگ والی بکری کو دنیا میں مارا ہوگا۔ غرضیکہ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف ظلم کی حرمت ونحوست کو بار بار ذکر کیا ہے اور اس کے برے انجام سے متنبہ کیا ہے، بلکہ مظلوم کی مدد کرنے کی تعلیم وترغیب بھی دی ہے، اور مظلوم کی بددعا سے بھی سختی کے ساتھ بچنے کو کہا گیا ہے کیونکہ مظلوم کی بددعا اللہ کے دربار میں رد نہیں کی جاتی۔
عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ظلم کو حرام قرار دے کر سب کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے اور ظالموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے ورنہ غریبوں کو دو وقت کا کھانا ملنا بھی دشوار ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے تمام مذاہب میں ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔ دنیاوی قوانین بھی اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ظلم پر روک لگائی جاسکے، لیکن ہر دور میں کچھ لوگ اپنے مذہب کی تعلیمات اور عالمی وملکی قوانین کی دھجیاں اڑاکر کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ جس کی تازہ مثال برما کے بدھ مذہب کو ماننے والے وہ دہشت گرد ہیں جو آنگ سان سوچی کی موجودہ حکومت کی تایید سے غریب، کمزور اور مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ ہیں۔ انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیمیں اور دنیا میں امن کے ٹھیکیدار صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں، اور برما کی حکومت اور بدھوں کے خلاف کوئی قابل ذکر کاروائی نہیں کی جارہی ہے۔
برما کے مظلوموں کی مدد کرنا تو درکنار ہندوستانی حکومت’ ایک ارب اور چونتیس کروڑ آبادی والے ملک میں صرف چالیس ہزار اُن برما کے باشندوں کو بھی ہندوستان سے نکالنے پر مصر ہے جو سڑکوں پر کوڑا کرکٹ اٹھاکر ز ندہ رہنے کے لیے دو وقت کا کھانا بمشکل کھالیتے ہیں، حالانکہ ہندو مذہب کے ماننے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کی مذہبی کتابوں میں بھی مظلوموں کی مدد کرنے کی تعلیمات موجود ہیں۔ پوری دنیا کی عوام برما کے غریب لوگوں پر ہورہے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر در بدر مارے پھر رہے ہیں۔ دنیا میں امن پسند لوگوں کی جانب سے اِن مظلوموں کی مدد کے لیے آوازیں بلند کی جارہی ہیں۔لیکن کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھنے والے دیکھیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں برما کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں مظاہرہ کیے گئے لیکن ایک شخص کو بھی ایذا نہیں پہنچائی گئی کیونکہ اسلام تو آیا ہی ہے دنیا میں امن وسلامتی اور چین وسکون پھیلانے کے لیے۔ ہندوستانی حکومت سے برما کے مظلوموں کی مدد نہ کرنے کا شکوہ ہم کیسے کریں ،جب کہ ٥٠ مسلم ممالک کے قائدین برما کے مظلوموں کی مدد کے لیے وہ توجہ نہیں دے رہے ہیں جو اُن سے انسانی اور شرعی اعتبار سے مطلوب ہے۔
اسپین کی مناریں اذان کی آواز سنانے کے لیے ترس رہی ہیں جہاں ٧٠٠ سال مسلمانوں نے حکومت کی تھی۔ برما میں بدھوں کے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو دیکھ کر تاریخ رقم ہونے کا خدشہ ہے کہ برما کے راکھائن ریاست میںقتل عام کرکے روہنگیا مظلوم وغریب مسلمانوں کی نسل کو ختم کردیا گیا، جہاں مسلمانوں نے ٣٥٤ سال حکومت کی تھی۔ مال ومنصب کے ملنے پر انسان کمزوروں پر ظلم کرنے لگتا ہے ، حالانکہ اسے سوچنا چاہئے کہ ساری کائنات کو پیدا کرکے پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلانے والے نے خود اپنی ذات سے ظلم کرنے کی نفی کی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اللہ ذرّہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (سورة النساء ٤٠) نیز نبی اکرمۖ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر بھی حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ہے۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (صحیح مسلم ۔ باب تحریم الظلم) ظلم کے اقسام:علماء کرام نے ظلم کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ ١) شرک کرنا یعنی عبادت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔ ٢) گناہ کا ارتکاب کرکے خود اپنے اوپر ظلم کرنا۔ ٣) دوسرے انسان پر ظلم کرنا۔
شرک کرنا: ہمیں ایسی تمام شکلوں سے بچنا چاہئے جن میں شرک کا ادنیٰ سا بھی شبہ ہو، کیونکہ شرک کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑا گناہ اور ظلم قرار دیا ہے۔حضرت حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کے لیے نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ وہ وقت یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: ” اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ یقین جانو شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔” (سورة لقمان ١٣) اگر انسان شرک سے توبہ کے بغیر مرجائے تو قیامت کے دن اس جرم عظیم کے لیے معافی نہیں ہے، جیساکہ فرمان الٰہی ہے: بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ ایسا بہتان باندھتاہے جو بڑا زبردست گناہ ہے۔ (سورة النساء ٤٨) گناہوں کے ارتکاب سے اپنے نفس پر ظلم کرنا: جس طرح اللہ کی اطاعت سے اللہ تعالیٰ بندوں سے راضی ہوتا ہے، اسی طرح اللہ کی نافرمانی سے اللہ تعالیٰ بندوں سے ناراض ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو پیدا کرکے فرمایا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو، اور اس میں سے جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس بھی نہ جانا، ورنہ تم ظالموں میں شمار ہوگے۔ (سورة البقرة ٣٥) اسی طرح اللہ تعالیٰ طلاق کے مسئلہ کو ذکر کرکے ارشاد فرماتا ہے: جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہ بڑے ظالم لوگ ہیں۔ (سورة البقرة ٢٢٩) جو کوئی اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود سے آگے نکلے گا، اُس نے خود اپنی جان پر ظلم کیا۔ (سورة الطلاق ١)کسی انسان کا دوسرے انسان پر ظلم کرنا: ظلم کی پہلی دو قسموں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، جبکہ تیسری قسم کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ ظلم کی اِس قسم پر خصوصی توجہ درکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے متعلق اپنا اصول وضابطہ بیان کردیا ہے کہ جب تک بندہ سے معاملہ صاف نہیں کیا جائے گا وہ معاف نہیں کرے گا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کسی بھی انسان پر کسی بھی حال میں ظلم نہ کرے، بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق دوسروں کی مدد کرے، ظالم کو ظلم کرنے سے حکمت کے ساتھ روکے اور مظلوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہو۔ جیسا کہ حضور کرمۖ نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں، لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کس طرح ہوگی؟ حضور کرمۖ نے فرمایا: (ظالم کی مدد کی صورت یہ ہے کہ) اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یعنی اسے ظلم کرنے سے روک دو۔(بخاری ۔ باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً) کسی انسان کے دوسرے شخص پر ظلم کرنے کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔
چند حسب ذیل ہیں: یتیم کے مال کو ہڑپنا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال اُن پر ظلم کرکے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، اور انہیں جلدی ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہوناہوگا۔ (سورة النساء ١٠) اسی طرح کسی بھی انسان کے مال کو ناجائز طریقہ سے حاصل کرنے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا: کسی کمزور یا غریب کو دبا کر اس کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا بھی ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص نے ایک بالشت زمین بھی کسی دوسرے کی ظلماً لے لی تو سات زمین کا طوق اس کی گردن میں پہنایا جائے گا۔ (بخاری ۔ باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)اسی طرح فرمان رسول ۖ ہے: جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔ (بخاری ۔ باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)کسی غیر مسلم پر ظلم کرنا: مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں سے بھی انسانیت کی بنیاد پر ایک ہی جیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ کسی غیر مسلم پر بھی ظلم کرنا حرام ہے۔ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ذمی (یعنی وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتاہے) پر ظلم وزیادتی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے گایا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی رضا مندی کے لے گا تو اُس ذمی کی جانب سے اُس شخص کے ساتھ خصومت کرنا والا میں (نبی اکرمۖ) خود ہوں گا۔ (ابوداود ۔ باب فی اہل تعشیر اہل الخدمہ)مزدورکی اجرت کی ادائیگی نہ کرنا یا اس میں کمی کرنا: حضور اکرمۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کا قیامت میں میں فریق بنوں گا، یعنی میں ان کے مخالف کھڑا ہوں گا۔
وہ شخص جس نے میرے نام پر وعدہ کیا اور پھر وعدہ خلافی کی۔ وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی ہو (اور اس طرح اس کی غلامی کا باعث بنا ہو) ۔ اور وہ شخص جس نے کسی کو مزدوری پر لیا ہو، پھر کام تو اس سے پوری طرح لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی ہو۔ (بخاری ۔ باب اثم من منع اجر الاجیر) اسی طرح فرمان رسولۖ ہے: مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ سوکھنے سے قبل دی جائے۔ (ابن ماجہ ۔ باب اجر الاجرائ)لوگوں کے حق کی ادائیگی میںٹال مٹول کرنا: رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا: قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری ، مسلم) نیز رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا۔ (مسلم) انسانوں پر ظلم کرنے کی متعدد شکلوں میں سے چند صورتیں ذکر کی گئیں ہیں، لیکن ہمیں تمام ہی شکلوں سے بچنا چاہئے کیونکہ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاة (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیںگے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم ۔ باب تحریم الظلم)مظلوم اور ہم کیا کریں؟: مظلوم صبر کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق ظالم کو ظلم سے روکے۔ اور دوسروں سے مدد حاصل کرکے اپنے ملک کے قانون کے تحت کاروائی کرے۔ ہمیں مظلوم کی حتی الامکان مدد کرکے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اور اگر ہم ظالم کو ظلم کرنے سے روک سکتے ہیں تو ملکی قوانین کو سامنے رکھ کر ضرور یہ ذمہ داری انجام دینی چاہئے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتے ہیں۔ پھر جب اچانک اس کو پکڑتے ہیں تو اس کو بالکل نہیں چھوڑتے۔ پھر آپۖ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ” اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ شہروں کو پکڑتے ہیں جبکہ وہ ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یقینا اس کی پکڑ بڑی دردناک ہے۔(بخاری ومسلم)
Najeeb Qasmi
تحریر : ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)