تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ ہمیں کتابوں سے محبت ہے۔ شایداسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے دوست نائب صدر خیبر مارگلہ کلب اسلام آباد، جنا ب طارق خٹک نے ہمیں تقریب رونمائی کتب میں شرکت کی دعوت دی۔ اس تقریب میں تین کتب کی رونمائی ہوئی۔ نمبر ا”پوسٹ اسلام ازم” جو انگریزی زبان میں لکھی گئی جس کے مصنف ڈاکٹر حسن الامین صاحب۔ نمبر ٢” پو لیٹیکل ہسڑی آف خیبرپختونخواہ” یہ بھی انگریزی میں لکھی گئی جس کے مصنف جناب فخر لاسلام اور نمبر ٣ ” فریب ناتمام” جو اردو میں لکھی گئی کے مصنف جمعہ خان صوفی ہیں۔ یہ تقریب کتب رونمائی مارگلہ ہوٹل اسلام آباد میں ہوئی۔ میں دوستوں کے ساتھ وقت پر اس تقریب کتب رونمائی میں پہنچ گیا۔ مغرب کی نماز شرکا ِ تقریب نے ہوٹل میں ہی باجماعت ادا کی۔
تقریب رونمائی کتب کی کاروائی کے لیے پانچ بجے کا وقت دیا گیا تھا۔ کاروائی کچھ تاخیر کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد شروع ہوئی۔ سب سے پہلے انعام یافتہ قاری نے تلاوت قرآن پاک پیش کی۔ اسٹیج سے تقریب کی کاروائی کا اعلان جنرل سیکٹری خیبر مارگلہ کلب نے کیا۔ اس کے بعدخیبر مارگلہ کلب اسلام آباد کو قائم کرنے کے اغراض و مقاصد کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا۔اسلام آباد میں کے پی کے سے تعلق رکھنے والے پشتونوں کی بڑی تعداد آباد ہے جس میں مزدور، کاریگر، طلبا، صنعت کار، ٹرانسپورٹرز، وکلائ۔ ضج، اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئر۔شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹ، سماجی کارکن اور سیاستدان شامل ہیں۔ کچھ دنوں سے اس بات پر سوچا جا رہا تھا کہ کیوں نہ اس آبادی کو ایک اعلیٰ فلاحی نصب العین اور مشن کے تحت منظم کر کے ایک ایسے پلیٹ فارم میں تبدیل کیا جائے جس سے انسانیت کوفائدہ پہنچے اور ملک و ملت میں بھائی چارے، رواداری،عدل وانصاف، امن خوشحالی، علم دوستی اور باہمی احترام جیسی اقدار کو فروغ ملے۔
آخر کار اسی سوچ نے خیبر مارگلہ کلب کی شکل اختیار کی۔جس کی ابتدائی تقریب ٢٩ جنوری ٢٠١٧ء کو اسلام آباد کلب میں منعقد ہوئی۔ خیبر مارگلہ کلب اسلام آباد کے مقاصد کچھ اس طرح بیان کیے گئے۔وژن:۔ انسانیت کی فلاح۔ مشن:۔ فرد ، گروہ اور اداراروں کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے مددا و ررہنمائی فراہم کرنا۔میدان کار:۔تعلیم، صحت، ثقافت، ماحول اور حالاتِ حاضرہ۔ضابطہ اخلاق:۔ شورائیت،خیر خواہی، امانت، دیانت، اور حساس ذمہ داری جیسے اصولوں کی پاسداری کرنا۔طریقہ کار:۔مذاکرہ، سیمینار،ورکشاب، اسٹڈی سرکل،لیکچر،مشاہرہ،سپورٹ،پکنک،اسٹڈی ٹور،ایوارڈ، وظائف کتب و رسائل اور میڈیا کا استعمال۔ مالیات:۔ اپنی مدد آپ اور عطیات۔ممبر شب:۔ ہر فرد جو کے پی کے سے تعلق رکھتا ہو خیبر مارگلہ کلب اسلام آباد کا ممبر بن سکتا ہے۔ اسٹیج سیکر ٹیری جناب ڈاکٹر سعد اللہ شاہ، صدر خیبر مارگلہ کلب اسلام آباد نے پروگرام کے آخر سے کچھ وقت پہلے ان ہدائف میں کچھ کا عملی کام کرنے کاپروگرام ،جو بھی پہلے سے بنایا گیا تھا اسٹیج سے اعلان کیا گیا۔
ان کاموں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ذمہ داروں کے نام ممبران کو بتائے گئے تاکہ ان پروگراموں میں شرکت کے لیے ان سے رابطہ کیا جا سکے۔ یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ انتظامیہ عبوری طور پر بنائی گئی تھی جس کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ اگلے مدت کے لیے انتظامیہ کو منتخب کرنے کے لیے پروگرام اور ممبران کو فعال کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کی گئی۔ حاضرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے اسٹیج پر جناب طارق خٹک نائب صدر خیبر مارگلہ کلب اسلام آباد کو بلایا گیا۔انہوں نے اپنے مختصر خطاب میںخیبر مارگلہ کلب اسلام آباد کو قائم کرنے اور اس کی ابتدائی میٹینگ کی کاروائی حاضرین کے سامنے رکھی۔ خیبرمارگلہ کلب کے قیام کے مقاصد اور آیندہ کے امور بیان کرنے کے بعد کتب کی رونمائی کے لیے تینوں کتب کے مصنفین کو باری باری اپنی کتابوں کے تعارف کے لیے اسٹیج پر بلایا گیا۔ سب سے پہلے جنا ب ڈاکٹر حسن الامین مصنف کتاب ”پوسٹ اسلام ازم” اسٹیج پر تشریف لائے۔ انہوں نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھے گئے مضامین پر روشنی ڈالی۔جن میں اسلام کی جاری تحریکوں کی جذیات اوروجوہات بیان کیں۔ مغرب ان تحریکوں کو کس طرح دیکھتا ہے وہ بیان کیا۔ مسلم معاشرے کے پڑھے لکھے سمجھ دار لوگ ان تحریکوں کے نتائج کے متعلق کیاسوچتے ہیں ۔
اس پر بھی پر روشنی ڈالی۔ اس پر بھی تبصرہ کیا کہ اسلام کی نشاة ثانیہ سے دنیا کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام امن اور شانتی کا دین ہے۔انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ مسلمانوں کے اندر سے ان تحریکوں کے متعلق تنقید کی جاتی ہے کہ اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے اس طرح نہیں جس طرح ہم سوچتے ہیں بلکہ ایسا ایساہونا چاہیے۔اسلام کی نشاة ثانیہ اور مسلح تحریکوں پر بھی سیر حاصل بعث کی گئی۔مغرب سیاسی اسلام کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ مسلمان مسجدیں بنائیں، عبادت کریں، حج کو جائیں سب کچھ کریں مگر سیاسی اسلام کی بات نہ کریں۔ جوکچھ مغربی دینا میں نظام حکومت چل رہا ہے اسی کو اپنے اپنے ملکوں میں رائج کریں۔ کتاب کے مین صفحے پر دنیائے اسلام میں جاری اسلامی تحریکوں کے سربرائوں کے اکھٹے فوٹو،پاکستانی معاشرہ ملاوٹ شدہ سیکولرازم اور بین الاقومیت میں ڈھلتا ،لکھی تحریر سے مصنف کا اسلام سے گہرا لگائو اور محبت کا اظہار محسوس ہو تا ہے۔ ہم نے ان سے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کی خواہش کا اظہار کیا جو انہوں نے مان لیا۔اس کے بعد دوسرے مصنف جناب ڈاکٹرفخر الاسلام کو اسٹیج پر بلایا گیا۔ انہوں نے اپنی کتاب” پولیٹیکل ہسٹری آف خیبرپختون خواہ۔١٩٠١ء تا ١٩٥٥ئ” کے مندرجات پر روشنی ڈالتے ہوئے خیبر پختونخواہ کے ماضی حال مستقبل پر بات کی۔ انہوں نے عبدالغفار خان صاحب کی خدائی خدمت گار تحریک پر روشنی ڈالی۔ان کے پاکستان مخالف اقدام کے ساتھ ساتھ سرحدی گاندھی کی طرف سے کی گئیں اچھی باتوں کا بھی ذکر کیا۔ جس پراس کے مخالفیں نے تنقید کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سچ ہے کہ قائد اعظم سے مولانا مودودی نے پاکستان بنانے میں اختلاف کیا تھا ۔مولانا کو چاہنے والوں کو چیں بجیں نہیں ہو نا چاہیے۔ تاریخ یہی ہے اس کا سامنا کرنا چاہیے۔مولانا مودودی نے قائداعظم کے پروگرام کے مقابل تین تجاویز پیش کیں تھیں۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ تین تجاویز پاکستان مخالف کانگریسی علماء کے نقطہ نظر سے بہتر تھیں۔ کانگریسی علماء کہتے تھے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ یہ ہنددئوںکے نقطہ نظر والا بیانیہ تھا۔ جبکہ قائد اعظم نے دو قومی نظریہ پیش کیا تھا۔ قائد اعظم کے دو نظریہ کو مولانا موددی کے قوموں کے اسلامی نقطہ بیانیہ نے تقویت پہنچائی۔ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب کو لکھنے کے لیے مواد لندن میں انڈیا آفس لائبریری سے حاصل کیا۔
اس لائبریری میں انگریزوںکی لکھی کتابوں کی تعداد دیکھ کر حیران ہوا۔ دو تہائی کتب خیبر پختون خواہ اور فاٹا پر ہیں۔ اس کا سارے علاقے کارقبہ ایک لاکھ مربع میل بنتا ہے ۔ جب کہ باقی برٹش حکومت برماسے پنجاب کے علاقے تک تھی۔ اس اتنے پڑے علاقے کے حالات پر کتابوں کی تعداد کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزکیا سب حملہ اور جو ان علاقوں سے گزرتے تھے پٹھان ان کی مذاحمت کرتے تھے۔ سید احمد شہید نے سکھوں سے جہاد کے لیے یہی علاقہ منتخب کیا تھا۔تزک بابری پڑھیں ۔اس نے لکھا کہ میں نے انسانوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنا اس راستے کو عبور کیا تھا۔انگریز نے ایک سازش کے کے تحت ان علاقوں میں تنخواہ دار لیویز قائم کیں اور ان کے ہاتھ میں اسلحہ تھما دیاجو آج تک رائج ہے۔مختصر کہ خود ہم لوگوں نے اپنے متعلق اور اپنے علاقے کے متعلق کچھ بھی نہیں لکھا۔ میں نے اس کتاب میں ایک معمولی سے کوشش کی ہے۔ آخر میں جناب جمعہ خان صوفی کو اپنی کتاب” فریب ناتمام” پر روشنی ڈالنے کے لیے اسٹیج پر بلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ جو یہ الزام پاکستان پر لگاتے ہیں ان کی نیشنل عوامی پارٹی خود افغانستان کو پاکستان میں مداخلت پر اُکساتی رہی ہے۔جمعہ خان نے کہا کہ ڈکٹیٹر یخییٰ خان کی حکومت کے دوران اجمل خٹک صاحب واپس پاکستان آیا جو پہلے خفیہ طریقہ سے افغانستان میں گیا تھا۔میں بھی افغانستان گیا تھا۔
ہم لوگ بھارت، روس اور عراق کے سفارت خانوں سے رقم وصول کرتے تھے۔ دائود خان صاحب نے مجھے پاکستان ولی خان صاحب کے نام یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اپنے پشتون زلمے کے نوجوانوں کوافغانستان بھیجو۔ میں ان کو پاکستان کی فوج سے لڑنے اور پشتونستان بنانے کے لیے تربیت دینے کے لیے تیار ہوں۔ ولی خان خود افغانستان گیا اوردائود سے معاملہ طے کیا۔ ولی خان کے لوگوں نے دہشت گردی کی ٹرینیگ لی اور پاکستان میں دہشت پھیلائی ۔حیات محمدشیر پائو کو قتل کیا۔لاہور واپڈا پربم مارا جس سے درجن بھر شہری شہید ہوئے۔ بلوچ پاکستان فوج سے لڑے۔ تب بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی۔ جس کو بعد میں جنرل ضیا نے بھٹو دشمنی میں ختم کیا۔انہوں نے کہا کہ غفار خان صاحب نے کبھی بھی اپنی عوام کو صحیح حالات سے باخبر نہیں رکھا۔ وہ ہنددئوں کے ہم نوا تھے۔ وہ نہ جمہوریت پسند تھے اورنہ ہی اپنے لوگوں کے ہمدرد تھا۔ بس وہ ایک خان تھے۔انہوں نے غفار خان پرانگریزی میں لکھی گی اپنی کتاب پر بھی روشنی ڈالی۔تینوں مصنفوں سے حاضرین کو مختصر سوال کرنے کا موقعہ بھی حاضریں کو دیا گیا۔دو کتب فروشوں نے کتابوں کے اسٹال بھی لگائے حاضرین نے اس اسٹالوں سے کتابیں خریدیں۔ پروگرام کے بعد نماز عشاء ادا کی گئی اور اس کے بعدکھانا کھایا گیا۔اس کے بعد پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔