تحریر : مدیحہ ریاض ابلاغ عامہ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے ـاور اس اکیسویں صدی میں ابلاغ عامہ سمٹ کر ایک آلے میں مقید ہو چکا ہےـاور اس آلے نے دنیا کے فاصلوں کو مٹا کر گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرلی ـاس آلے کے ہونے کے باوجود دنیا میں اخبارات اور ٹی وی چینل کی اہمیت اپنی جگہ مسلط و قائم ہے ـصحافت کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے.
ملک میں اتتشاری کیفیت کو پروان چڑھانا ہو تو صحافت ,کسی بھی فرد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانا ہو تو صحافت,کسی بھی فرد کو بلندی سے پستی میں گرانا ہو تو صحافت,عوام کی سوچ کو قابو رکھنا ہو تو صحافت, صحافت کا یہ فارمولا کوئی صدیوں پرانا نہیں بلکہ یہ فارمولا اس جدید دور کا ہے جہاں ایک طرف تو انسان نے چاند فتح کر لیا تو دوسری طرف انسان اس پستی سے باہر ہی نہ نکل سکا ـبرصغیر پاک و ہند پر جب انگریزوں نے حملہ کیا اور ہندوستان پر قابض ہو گئے لہذا بر صغیر کے لوگ ہر طرح سے انگریز سرکار کے غلام ہو گئے.
انگریزوں نے وہاں کے لوگوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دئیے ـاس وقت کے پڑھے لکھے اور با شعور لوگوں نے ایک ایسے شعبے کا انتخاب کیا جو وہاں کی عوام میں شعور بیدار کر سکے ـاور وہ شعبہ تھا صحافت کا ـصحافت کا کام اور مقصد ہی لوگوں کی اندھیر زدہ زندگیوں میں روشنی کی کرن لاناـانھیں ان کے حقوق و فرائض سے آشنا کروانا ـان کے اندر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت دلانا ـملک کے غداروں کا چہرہ عوام کے سامنے لانا ہی صحافت ہے ـلیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ قائد کے پاکستان میں صحافت کے معنی و مفہوم بدل گئے,مقصد بدل گیا ـفرض شناسی کی فیور ٹ ازم نے لے لی ـحق کی آواز کو دبانے کے لئے اصل صحافت کی جگہ لفافہ صحافت نے لی ـملک کا کوئی بھی ادارہ غیر جانبداری سے کام کرنے سے محرومہو چکا ہے ـقائد کے دور میں صحافت کا کا م شعور بیدار کرنا تھا اور قائد کی وفات کے بعد صحافت کا کام چاپلوسی رہ گیا ـپاکستان میں صحافت اب پیسہ بنانے کی مشیبن بن چکی ہے ـاس مشین سے فیضیاب ہونے کے لئے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مالکان مستفید ہورہے ہیں.
ہر نیوزٹی وی چینل اور اخبارات اپنے فیور ٹ ازم کو عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنے کی جنگ میں پیش پیش ہیں ـہرٹی وی چینل اور ا خبارات نے اپنی اپنی پسندیدہ ہستیوں کیمورل سپورٹ کے لئے ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالتے ہیں ـاپنے ذاتی نظریات کو عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنے میں سب سے آگے آگے ہیں ـبات کرنے خبر نشر کرنے کی کے اصول ہی بھول گئے ـاور چلیں ہیں ملک میں شعور بیدار کرنے ـبحیثیت ایک ادنی کالم نگارہونے کی حیثیت سے میں اس نیوز اینکر پرسن کے تعلیم یافتہ ہونے پر شک و شبہات کا شکار ہوں جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر کے لئے لفظ واویلا استعمال کیا ـمعلوم نہیں کہ یہ کونسی آزاد صحافت ہے جس میں روز اخلاقیات کا جنازہ لکلتا ہے.
آزادی صحافت اور آزادی نسواںمیں کوئی فرق نہیں ـان دونوں کے ساتھ لفظ آزاد لگا کر اسے بے لباس کر دیا ـصحافت کا مقصد ریاست اور اس کے اداروں اور حکومت کو عوام کے ساتھ جوڑنا ہے ـحقائق پر مبنی خبر کو عوام تک پہنچانا صحافت کا اہم اصول ہے ـحکومت کی ناقص یا اچھی کارگردگی کی خبر عوام تک پہنچانا آزادی صحافت میں شامل ہے ـحکومت کی ناقص پالیسیوں پر تنقید جمہوریت اور صحافت کا حصہ ہیں ـلیکن تنقید کرتے وقت ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹ پائے ـہر انسان کی اپنی پسند اور نا پسند ہے ـاور عوام کی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ـبحیثیت انسان میڈیا مالکان اور صحافی برادری کے بھی اپنے اپنے کوئی بنا کوئی پسندیدہ لیڈر ہوتے ہیں ـاور وہ ان لیڈران کے نظریئے سے عقیدت رکھتے ہیں ـسیاسی لیڈران سے عقیدت اور محبت ذاتی مسئلہ ہے مگر آج کل ہمارے ملک میں اس عقیدت اور احترام کو ناظرین اور قارئین پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ـاپنے اپنے سیاسی لیڈران کی محبت میں ذرائع ابلاغ کے شعبے میں اخلاقیات کا درس شائد ختم ہو گیا ہے ـتبھی جو اینکرز ریٹنگ کے چکر میں اپنے اپنے سیاسی ٹاک شوز میں سیاستدانوں کو زبان کے جوہر دکھانے پر اکساتے ہیں ـمیرا سوال ہے کہ صحافت کیا ہے?اور اس کے معنی و مفہوم اور مقاصد کیا ہیں?کیا یہ قائد کی صحافت ہے?.