تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم میں زاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ پاکستان کی بنیاد اتحاد، محبت اور بھائ چارے پر رکھی گئ تھی۔ کم از کم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی تقریر سُننے کے بعد مجھے تو کوئ شک نہی ہے۔ اسکا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی پہلی پارلیمنٹ میں 53 اراکین میں سے 13 اراکین اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ جن کی تعداد آج 70 سال گُزرنے کے بعد بڑھنے کے بجائیے کم ہو چکی ہے۔ پاکستان کی پہلی پارلیمنٹ میں 40 کے قریب مُسلم اراکین تھے جو آج 365 سے تجاوز کر گئے ہیں اور اقلیتی اراکین 13 تھے آج 10 ہیں۔ فرقہ واریت، مزہبی تعصب، قومیت، صوبایت اور زبان میں تفریق نے ملک کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ جن وجوہات کی بنا پر ہمارا ملک دو حصوں میں بٹ گیا ان وجوہات پر غور کرنے کے بجائے ہم اسی روش پر رواں دواں ہیں۔
ایک بات سمجھ نہی آتی کہ پوری قوم اور سارے ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی اور ہمارے داخلی امور میں جو سب سے بڑی مشکل ہے وہ ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئ انتہا پسندی ہے۔ اسی انتہا پسندی کی عمارت کی بنیادوں میں ہمارے ہزاروں پاکستانیوں اور فوجی جوانوں کا خون شامل ہے مگر ہم پھر بھی اس کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے بجائے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ چالیس سالوں میں ہماری حکومتوں کی ان انتہا پسندوں کے آگے ایک نہی چلی۔ بڑے بڑے بل اسمبلیوں مین پیش کئے گئے جو ان کے نظریات سے متصادم تھے مگر شرمندگی سے واپس لینے پڑ گئے۔ خیبرپختوں خواہ میں یہ طاقتور ہیں۔ سندھ میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم ان سے ٹکر لیتی تھی اسے کمزور کر دیا گیا۔ پنجاب میں مزہبی انتہا پسندی خطرے کی لکیر کراس کر چکی ہے۔ خدا نہ کرے کہ کبھی اس کا مظاہرہ دیکھنا نصیب ہو۔ اقلیتوں کے حوالے سے ہم اکثر حکومت کو اپنی تحریروں کے زریعے آگاہ کرتے رہتے ہیں مگر حالات بجائے بہتر ہونے کہ بگڑتے جارہے ہیں۔
صرف گزشتہ مہینے میں تین مسیحی نوجوان قتل کر دیے گئے۔ یہ ان تین مسیحی مزدوروں سے الگ ہیں جو گٹر کی زہریلی گیس سے ہلاک ہوئے ایک مسیحی طالب علم شہرون مسیح جسے اس کے اسکول میں اسی کی جماعت کے ساتھیوں نے اینٹوں، گھونسوں اور ڈنڈوں سے اتنا مارا کے وہ ہلاک ہو گیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ پانی پیتے وقت اس کا ہاتھ اس گلاس کو چھو گیا تھا جو مسلم بچوں کے لئے تھا۔ ایک طالب علم کو گرفتار کیا گیا تھا جس کا کیس بھی کمزور بنایا گیا ہے۔ وہ استاد آج بھی اسی اسکول میں ہیں جو شہرون مسیح کو چوہڑا کہہ کر بلاتے تھے۔ ایک اور مسیحی 35 سالہ ندیم جیمس کو اس لئے سزائے موت سنا دی گئ کہ اس کے مسلم دوست نے پولیس کو رپورٹ دی کہ ندیم جیمس نے توہین آمیز نظم اسے واٹس اپ پر بھیجی۔ ندیم جیمس کا یہ کہنا ہے اس کے مسلم دوست نے اس لئے اسے بھنسایا کہ اسے شک تھا کہ میری ایک مسلم لڑکی سے دوستی ہے۔
یوحنا آباد حملے کے بعد کچھ مسیحیوں کو گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے دو مسلمانوں کو تشدد کر کے ہلاک کیا تھا ان میں سے ایک ملزم جیل میں بیماری کے بعد علاج نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑرگڑ کر مر گیا۔ یہ باتیں ابھی مکمل نہی ہوئ تھی کہ گزشتہ روز بہاول نگر میں دو اور اقلیتی نوجوانوں پر توہین مزہب کا الزام لگا کر ان پر ایف آئ آر 1014/2017 کے تحت مقدمہ درج کر دیا گیا۔ جن حالات میں ان پر الزام لگایا گیا اور ان کو گرفتار کیا گیا ان حالات کو دیکھ کر کوئ مسلمان بھی جو اپنے نبی کی تعلیم پر واقئ عمل کرتا ہوگا کبھی بھی یقین نہی کرے گا۔ یہ دونوں نوجوان وشال مسیح ولد طارق مسیحی اور بھولا رام ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سول ہسپتال ڈھونگا بہاول نگر میں صفائ کا کام کرتے تھے۔ یہ ہسپتال کا پرانا ریکارڈ جلا رہے تھے جن میں کچھ قرآنی نسخے بھی جل گئے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کسی بھی ادارے یا دفتر میں کوئ بھی صفائ کرنے والا ، چپڑاسی، یا کوئ چائے بنانے والا اپنی مرضی سے کسی دفتر کا ریکارڈ تلف کر سکتا ہے ؟۔ جب تک کہ اسے اس کا افسر یا مالک کوئ ریکارڈ یا کاغزات جلانے کے لئے نہ دے۔ کسی نے ان دونوں بچوں کو یہ ریکارڈ نزرآتش کرنے کے لئے دیا وہ دونوں ہی ان پڑھ ہیں۔
کسی ان پڑھ بندے کے ہاتھ میں آپ چاہئے قرآن کا نسخہ دیں ، بائبل کا یا کچھ بھی جب اسے پتا ہی نہی ہے کہ اس کے ہاتھ میں دیا جانے والا ریکارڈ کیا ہے تو کیسے وہ قصوروار ہوگیا۔ قصور تو اس کا ہوا جس نے ان کو یہ جلانے کے لئے دیا مگر اب وہ بچے اس جرم کی زد میں ہیں اور ان کی کون سُنے گا۔ انتہا پسندی کی پرورش پہلے صرف مدرسوں میں ہوا کرتی تھی مگر اب یہ خبریں روز سُننے کو ملتیں ہیں کہ پنجاب یونی ورسٹی میں طالبات کو سر نہ ڈھانکنے پر زلیل کیا گیا۔ کبھی میوزک پروگراموں پر پابندی لگا دی گئ ہم سب جانتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کس کے قبضے میں ہے۔ پھر پشاور میں مردان یونیورسٹی میں وشال خان کے ساتھ ہونے والے واقعہ نے ہم سب کو حیران کر دیا ۔ اور حیران ہوئے جب کراچی یونی ورسٹی سے آئے دن انتہا پسندی کے حوالے سے نئ خبریں ملتی ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم اس طرح کی خبروں سے صرف حیران ہوتے ہیں۔ پریشان نہی ہوتے۔ کیوں حیران ہوکر ہم چند دن بعد ان خبروں کو بھول جاتے ہیں۔ ہاں اگر ہم حیران ہونے کہ ساتھ پریشان بھی ہوں تو شاید اس انتہائ خطرناک مسلئے کا کوئ حل تلاش کرنے کے لئے کوئ منصوبہ بندی کریں۔