تحریر : سلیم سرمد حقیقت نگاری (Realism) کی تحریک انیسویں صدی عیسوی میں فرانس میں شروع ہوئی۔جس نے نا صرف مغربی ادب کو متاثر کیا بلکہ مشرقی ادب( اردوادب)پر بھی اس نے اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔حقیقت نگاری سے مراد کسی شے یاحالات و واقعات کو اس کے حقیقی خدو خال کے ساتھ پیش کرنا یا ظاہر کرنا۔یعنی ادب میں حقائق کو قارئین یا ناظرین کے سامنے اس طرح پیش کرناجیسے کہ وہ درحقیقت وقوع ہوتے ہیں، خواہ وہ حقائق کتنے ہی تلخ اور ناگوار کیوں نہ ہوں۔حقیقت نگاری کی ابتداء تو فرانس سے ہوئی مگر اس کا باضابطہ آغاز کس مصنف نے کیا اس بارے میں محققین کسی ایک نام پر متفق نہیں ۔معروف محقق ڈاکٹر شکیل پتافی اپنی کتاب ” اردو ادب اور مغربی رجحانات”میں لکھتے ہیں کہ حقیقت نگاری کی ابتداء شان فلیوری کی تحریروں سے شروع ہوئی ۔ اس کی قابلِ ذکر تصنیف “Violon Defaience”،1862ء میں شائع ہوئی مگر فرانس میں یہ تحریک بہت جلد فطرت نگاری کی تحریک میں ضم ہو گئی اور مگر شان فلیوری کا بطور مصنف مرتبہ اتنا اونچا نہیں بتایا گیا۔ اسی لیے حقیقت نگاری کے بانی انیسویں صدی عیسوی کے عظیم فرانسیسی ناول نگار فلابیر 1881_1821)ئ(کو مانا گیا۔فلابیر کے شرئہ آفاق ناول” مادام بواری” کی اشاعت 1858ء کے بعد فلابیر کو حقیقت نگاری کا مفسرِ خاص مانا گیا۔
ارشد عزیز اور دیگر محققین کے مطابق حقیقت نگاری کی ابتدائHondre Blazerکے ہاتھوں 1850ء کے آس پاس فرانس میں ہوئی۔اُس نے پہلی بار ادب کی تاریخ میں اپنے ناول “Lacomedie Humaine”کے ذریعے فرانس کی سماجی زندگی کاحقیقی عکس پیش کیا۔اس کے بعد اُس کی روایت سے متاثر ہو کر بہت سارے مصنفوں اور ناول نگاروں نے اس روایت کو مضبوط کیا۔جن میں Gustava Flaubert، Feredick Angles، Eric Rohiner، Charles Dickens، اور Emile Zola وغیرہ کا نام قابلِ ذکر ہیں۔Charles Dickens نے اپنے نالوں میں غریبوں’ محتاجوں اورلاچاروں پر سرمایہ دارانہ’ استعماری قوتوں ‘ اور مقتدر و مسلط طبقے کی طرف سے کیے گئے مظالم اور استحصال کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا۔مغرب میں یہ دور چونکہ صنعتی انقلابی دور تھا لہٰذہ اس کے علاوہ بھی انھوں نے اپنی تحریروں میں صنعتی انقلاب سے پیدا ہونیوالی بیروزگاری اور لاچاری کو دلدوز انداز میں بیان کیا۔اُن کے ناول”David Copperfield”کا مرکزی کردار پورے دن کام کرتارہتا ہے لیکن اسے اس کے کام کی اجرت بہت ہی کم دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نجانے دن میں کتنی بار اسے جسمانی سزا دی جاتی ہے ،مارا پیٹا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا ناموں کے علاوہ دیگر مصنفین نے بھی اپنی تحریوں کے ذریعے حقیقت نگاری کو بامِ عروج تک پہنچایاجن کے نام مضمون کی طوالت سے بچتے ہوئے نہیں لکھے جا رہے البتہ ان میں سے کچھ نام یہ ہیں۔ ”ولیم بلیک”جن کی شاعری حقیقت نگاری کے اجزاء پائے جاتے ہیں۔انھوں نے اپنی شاعری کو بطور آلہ کے استعمال کرتے ہوئے سماجی خرافات ‘ اور مذہبی پادریوں کے کیے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اُٹھائی ، اس حوالے سے اُن کی نظمیں کافی مشہور ہیں۔معروف مصنف” موپساں ” اور Gerrge Eliaot کا کردار بھی حقیقت نگاری کے حوالے سے کلیدی مانا جاتا ہے۔ ان دونوں نے خاص طور پر دیہی زندگی کو اجاگر کیااور اپنی تحریروں میں دکھایا کہ عورت کومحبت اور سماجی بندشوں کے نام پرکتنی مصیبتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مغرب میں حقیقت نگاری صرف شاعری اور ناول نگاری تک محدود نہ رہی بلکہ آرٹ کی دیگر جہتوں ڈرامہ اور فنِ مصوری میں بھی فروغ کا رجحان پایا۔یہ تو تھا حقیقت نگاری کا مغرب کے ساتھ تعلق اور تعارف۔مگر حقیقت نگاری کا باقاعدہ آغاز کس مصنف نے کیا اس بارے فیصلہ کرنا کچھ مشکل ہے۔
مشرق ( ہندوستان)چونکہ اس وقت مغربی قوتوں اور برطانوی تخت کے زیرِ تسلط تھااس لیے مغرب کے مشرق میں وارد ہونے والے دیگر رجحانات کی طرح ادب و ثقافت اور مغربی ادب کے اثرات بھی ہندوستانی سماج اور ادب پر پڑے۔مغربی ادب کے انگریزی سے اردو میںتراجم ہونے لگے۔اور اس لیے مغربی ادبی تحاریک اور رجحانات مثلاً ترقی پسند تحریک۔ وجودیت۔ ڈاڈازم۔سرئیلزم۔ فطرت نگاری۔ علامت نگاری اور حقیقت نگاری کے اثرات بھی ہندوستانی ادب( اردو ادب) پر بہت گہرے پڑے۔جہاں تک اُردو ادب میں حقیقت نگاری کا تعلق ہے تو یہاں بھی اسے نمودار کرنے کے حوالے سے محققین کسی ایک نام پرمتفق نہیں۔کچھ محقق اس کی رونمائی پریم چند کے قلم سے منسوب کرتے ہیں تو کچھ اس کی ابتداء سر سیّد احمد خان کے ہاتھوں سمجھتے ہیں۔
اردو ادب میں بعض محققین اوّلین حقیقیت نگاروں میں سر سیّد احمد خان کو قابلِ ذکر ٹھہراتے ہیں اور اُن کی تحریک علی گڑھ کو حقیقت نگاری کی اساس قرار دیتے ہیں۔چونکہ رومانی تحریک نے ادب اور شاعری کی دنیا میں جو انقلاب بپا کیا تھااُس نے زندگی کے مادی بوجھ سے کسی حد تک نجات حاصل کر کے آسمانی رفعتوں میں پرواز کا رجحان تو پیدا کیا، مگر حقیقت نگاری رومانی تحریک کے پہلو بہ پہلو بر عمل نظر آئی۔ایک لحاظ سے حقیقت نگاری رومانی تحریک کی ضد تھی اور بجائے قیاس اور تصوّر کے زندگی کو اس کے اصل رنگ و روپ میں پیش کرنے کی سعی میں نظر آ رہی تھی’ دراصل حقیقت نگاری کا جزوِ خاص ہی زندگی کو اس کے اصل رنگوں میں پیش کرنا ہے۔
اگر ہم پریم چند کے بجائے علی گڑھ کی تحریک کو حقیقت نگاری کی ابتداء سمجھیں تو اس کے لیے مندرجہ ذیل وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جس میں برصغیر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر انتہائی قدامت پسندی کاغلبہ تھا۔معاشی تزلزل اور سیاسی ابتری نے مسلمانوں کو ذہنی امراض سے دو چار کردیا تھا۔وہ بد دل ہو کر روشن خیالی اور ترقی سے آنکھیں چرانے لگے تھے۔اس زمانے میں وہاںکی ادبی روایت بھی کچھ صحت مند بنیادوں پر استوار نہ تھی جس کی بدولت وہ صحت مند افکار کی تبلیغ وتشہیر سے قاصر تھی۔ان حالات میں سر سیّد احمد خان نے ادب کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی افادیت کو برتاجس کے نتیجے میں انہوں نے اردو ادب کو رومانیت کے تخیل و تصور کے بجائے حقیقت نگاری کا طرز دیا۔
مگر حقیقت نگاری کے حوالے سے جو پختہ اور صحت افزاء ادب پریم چند نے تخلیق کیا وہ یقینا اپنی مثال آپ ہے۔پریم چند سے پہلے اردو ادب کا محور رومانیت کے گرد گھومتا تھا مگرلیکن پریم چند نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں گاؤں اور شہر کی زندگی کے حقیقی عکس پیش کیے۔ بطور حقیقت نگار پریم چند کی انفرادیت یہ کہ انہوں نے بجائے کسی ایک قوم،ذات ‘ فرقہ دھرم اور مذہب کے تمام انسانوں اور معاشرے سے جڑے ہر فرد اور تمام انسانوں کو در پیش مسائل اور سماجی برائیوں کی نشاندہی کی۔درحقیقت پریم چند نے دیہی معاشرے اور شہروں میں پھیلے صنعتی نظام کے تضاد اوراس عہد میںپھیلی سماجی برائیوں اور سیاسی، معاشی اورسماجی زندگی کے آشوب اور عوامی جدو جہد کو حقیقت پسندانہ ڈھنگ سے پیش کیا۔
اپنے کئی شہرئہ آفاق ناولوں اور افسانوں میں پریم چند نے دیہی زندگی کے بنیادی،سماجی مسائل کوموضوع بنایا اور جاگیردارانہ ، سرمایادارانہ نظام کے ظلم و ستم اور مذہب، دھرم اور ذات پات سے پیدا ہونے والے مسائل اور برائیوں کو حقیقت نگاری کا چولہ پہنا کر قارئین کے سامنے لے آئے۔پریم چند کے حقیقت نگاری کے رنگ میں ڈوبے کچھ شاہکار افسانے درج ذیل ہیں۔نمک کا داروغہ۔کفن۔ عید گاہ۔ دو بہنیں۔ پگلی۔ تصویرِ حسرت۔ تصویرِ خودداری۔دینداری۔ انسان کی قیمت۔غریبی کا انعام۔ وہ محبت کی پتلی۔انسان نما حیوان۔شطرنج کے کھلاڑی۔کفّارہ۔ منتر اور نجات قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ پریم چند نے ہندوستان کی عورت کے دکھ درد اور اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے بیہمانہ سلوک کو اپنے نالوں اور افسانوں کا موضوع بنایا۔ پریم چند کے یہ ناول اورافسانے حقیقت نگاری کی عمدہ اور بے نظیر مثالیں ہیں۔
اردو ادب میں پریم چند کے علاوہ اور بھی کئی نام قابلِ ذکر ہیںجن کا حقیقت نگاری کے حوالے سے کردار اہمیت کا حامل ہے ان میں منٹو اور دیگر بھی کئی نام ہیں مگر منٹوکا نام حقیقت نگاری کے حوالے سے پریم چند کے بعد لیا جا سکتا ہے۔منٹو کے افسانوں میں بھی بہت سے ایسے کردار ملتے ہیں جو سماجی اور معاشی ناہمواریوں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔منٹو کی تحریروں میں جہاں جنسی برائیوں کی نشاندہی کی گئی وہیں انسانی نفسیات کا گہرا مشاہدہ بھی ملتا ہے۔منٹو کے ہاں بھی سماجی اورمعاشی ناہمواری کے اثرات، جنسی کوڑھ، مذہبی تفریق اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیمِ ہند کے دوران پیدا ہونے والے المیوں نے منٹو کو اپنے افسانوں میں حقیقت نگاری کے انتہائی تلخ رنگ بھرنے پر مجبور کردیا۔
اُردو نثر کے علاوہ اُردوشاعری میں بھی بہت سے نام ایسے ہیںجو حقیقت نگاری سے جڑے ہو ئے ہیں ۔اس سلسلے میں نظیر اکبر آبادی کو محققین نے خاص اہمیت دی۔بقول نظیر صدیقی: ”اٹھارہویں صدی عیسوی میں نظیر اکبر آبادی حقیقت نگاری کی ایک مستثنیٰ مثال نظر آتے ہیں”)بحوالہ:اردو ادب اور مغربی رجحانات)۔ ڈاکٹر شکیل پتافی اپنی تحقیق” اردو ادب اور مغربی رجحانات ”میں لکھتے ہیں کہ: ”نظیر اکبر آبادی کے علی گڑھ تحریک کے شعراء کے علاوہ اقبال نے اردو ادب میں شاعری کو سچ بولنا سکھایااور اشعار کے پردوں میں کئی جیتے جاگتے پیکر تراشے جو اُردو ادب میں حقیقت نگاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اقبال نے ایک عام آدمی کو شدید احساسِ کمتری سے نجات دلا کر اُس میں خود داری و خود اعتمادی اور خود شناسی کا جوہر پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ساتھ ہی زندگی کے حقائق کو اس انداز میں پیش کیا کہ زندگی حقیقت بن کر اُبھر آئی۔اقبال کا یہ اقدام فرد کی انفرادیت کو منظرِ عام پر لانے کی ایک کاوش تھی” قارئین! حقیقت نگاری نے ناصرف قدیم ادب کو ترقی دیتے ہوئے معاشرے کی تعمیر کی دی بلکہ اس کی اہمیت کی حامل واضح مثالیں موجودہ ادب میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ در حقیقت ، حقیقت نگاری نے زندگی کے فلسفے کو سمجھنے میں آسانی فراہم کی ۔حقیقت نگاری نے اُن انسانی، اخلاقی قدروں کی پامالی کی طرف معاشرے کے فرد کی توجہ دلائی جن کے بارے میںعام طور پر فرد سنجیدہ نہ تھا،اور گردن تک سماجی برائیوں میں دھنسا ہوا تھا۔ بلاشبہ حقیقت نگاری ادب میں آئینہء خانہ کی حیثیت رکھتی ہے۔