تحریر : شہزاد حسین بھٹی اگرچہ ان دنوں موضوعات کی بہتات ہے لیکن بعض خبریں بہت دلچسپ اور اپنے اندر کئی اشارے سمو ئے ہوئے ہیں۔ ایک خبر تو یہ ہے کہ احتساب عدالت نے غیر قانونی بھرتیوں کے کیس میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو حاضری سے استثنیٰ دے دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم کو استثنیٰ دینا شاید اتنا حیران کن نہ ہوتا اگر نظریں اس خبرکے ساتھ جڑی ایک اوراستثنیٰ کی خبر پر ٹھہرنہ جاتیں۔ خبر یہ ہے کہ کسٹم عدالت راولپنڈی میں زیر سماعت کرنسی اسمگلنگ کیس میں ماڈل ایان علی کو بھی عارضی استثنیٰ دے دیا ہے جو شاید مستقل استثنیٰ میں تبدیل ہو جائے۔ ایک اور خبر کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف اُن کا پورا خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی عدالتوں میں حاضری سے استثنیٰ کے طلب گار ہیں ۔ جلد یا بدیر اس خبر کی توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ معزز عدالتیں ان سب ملزمان کو استثنیٰ دے دیں۔ عدالتوں میں پیشی سے رعایت دینا معززعدالت کا اختیار ہے اور قانونی موشگافیوں سے ایک عام شہری ناواقف ہے لیکن ان رعائیتوں پر چند سوال ضروراُٹھتے ہیں اور قانون کی گھمن گھیریوں سے بااثر اور شاطر ملزمان ماضی میں کس طرح مستفید ہوتے رہے وہ کسی سے بھولا نہیں ہے۔حسین حقانی جس کو مہذب ترین الفاظ میں بھی دور حاضر کا میر جعفر قراردیا جا سکتا ہے۔قانون کی انہی کمزوریوں کا فائد ہ اُٹھاتے ہوئے وطن عزیز سے بھاگ گیا اور اب انتہائی دیدہ دلیری سے پاکستان کے بارے میں دیارغیر میں بیٹھ کرزہراُگلتا رہتا ہے۔ اور یہ سیدھے سادھے الفاظ میں ہمارے نظام عدل کو کھلا چیلنج بلکہ اسکے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک معمولی جرم میںملوث شخص ان کورٹ کچہری کے چکر لگا لگا کر اپنی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے مگر عدالتوںمیںحاضری سے استثنیٰ اس کا مقدر نہیں بنتا۔ میں نے دوران رپورٹنگ ستر ستر سالہ بوڑھے اشخاص کو عدالتوں کی راہداریوں میں دھکے کھاتے دیکھا ہے کہ جنکی صحت انہیں دو قدم چلنے کی اجازت نہیں دیتی لیکن ان کے لیے نہ تو کوئی میڈیکل بورڈ ہے ، نہ عدالتی حاضری سے رعایت کی کوئی اور صورت! میں جب ایسی خبریں دیکھتا ہوں تو حیران و پریشان ہو جاتا ہوں کہ عدالتیں جب ایک عام آدمی کے وارنٹ جاری کرتی ہیں تو مقامی پولیس اسکے گھر کے دروازے تک توڑ دیتی ہے اور اسکے قریبی عزیز و اقارب جو بھی میسر ہواُسے گھسیٹتے ہوئے تھانے لے جاتی ہے اور اُس وقت تک زیر عتاب رکھتی ہے جب تک کہ مطلوب ملزم خود ہاتھ باندھ کر اُن کے قدموں میںنہیں گِر جاتا۔ جبکہ دُوسری طرف بااثر ملزمان کے لیے عدالتی وارنٹ سالہ سال جاری ہوتے رہتے ہیں اور وہی قانون جو عام آدمی کے لیے ایک جابر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ طاقت ور کے لیے جاری کردہ ثمن کو ردی کاغذ کے ٹکرے جتنی اہمیت دینے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔
جب انصاف کی بات کر رہے ہیں تو پاکستان میں انصاف کے سب سے بڑے علمبردار عمران خان کاذکر بھی ضروری ہے۔ عوامی جلسوں میں اخلاقیات اور قانون کا درس دینے والا یہ رہنما عدالتی اشتہاری ہے مگر قربان جائیں اس قانون پر کہ جس کے ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھتی اورا س معاملے میں وہ ایک لاش کی طرح بے حرکت اور خاموش ہے۔ ہم دور جدید کی جدتوں کا ڈھنڈورہ پیٹتے نہیں تھکتے لیکن اکیسویں صدی میںپاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے پوش ترین علاقے میں پولیس چودہ افراد کو گولیوں سے بھون ڈالتی ہے اور متاثرین انصاف کے لیے دربدر۔ عدالتی حکم کے باوجود پنجاب حکومت جسٹس باقر نقوی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے سے انکاری ہے۔ متاثرین کے اس بنیادی حق کو تلف کرنے کے لیے وہ تمام ہتھکنڈے اختیار کیے جا رہے ہیں جو تاخیر در تاخیر کے اسباب پیدا کررہے ہیں اور ایسے وقت میں ملک کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ارشاد فرما رہے ہیں کہ سیاسی فیصلے عدالتوں اور سٹرکوں پر نہیں ہوتے ۔ اگرچہ یہ بات کرتے وقت وہ بھول گئے کہ سڑکوں پر عدالتیں لگانے کا دعویٰ انہی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کیا تھا اور اسلام آباد سے لاہور سٹرکوں پر گھنونی سیاست رچانے کا جو منصوبہ انہوں نے تشکیل دیا اسکو اگر عوامی پذیرائی مل جاتی تو شایداس ملک میں بچا کھچا قانون بھی کسی بوری میں بند کرکے کونے کھدرے میں ڈال دیا جاتا۔
سوال یہ ہے کہ یہ نظام، یہ قانون ،یہ سماجی معاہدہ ،یہ سب کچھ عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہے۔ اگر عام آدمی اس نظام سے تنگ اور بے زار ہے، قانون خواص کی لونڈی بن جائے، جمہوریت چند بااثر گھرانوں کا کھیل رہ گیا ہے تو پھر اس نظام کو بدلنا ہو گا اور معاشرے کے موجودہ حبس، اُکتاہٹ اور بے چینی سے میں یہ اندازہ کر رہا ہوں کہ وہ وقت اب دور نہیں جب نسل در نسل ظلم سہنے والے بے بس لوگ اُٹھیں گے اور اس پورے نظام کو لپیٹ دینگے۔