تحریر : روہیل اکبر کراچی میں ایک صاحب موٹر سائیکل پر نکلتے ہیں اور راہ چلتی ہوئی خاتون کو اپنی چھری سے زخمی کرکے چھلاوے کی طرح غائب ہوجاتے ہیں یہ موصوف بھی ہمارے سیاستدانوں کی طرح ہے جن پر اربوں روپے لوٹ مار کا الزام ہے حالانکہ لوٹ مار کا پیسہ بلکل سامنے نظر آرہا ہے کبھی سرے محل کی شکل میں کبھی لندن فلیٹس کی شکل میں اور تو اور ہمارے صاحبان اقتدار کے رہن سہن اور انکی عیاشیوں سے صاف نظر آرہا ہے کہ انہوں نے پیسہ چوری کیا ہے سابق وزیراعظم کو جب نااہل کرکے اقتدار کے ایوان سے نکال باہر کیا گیا تو انہوں نے بھی پوچھنا شروع کردیا کہ مجھے کیوں نکالا انکے اربوں روپے کی کرپشن کے کیس نیب کورٹ میں چلنا بھی شروع ہوگئے اور انکے داماد ایک رات پکڑن پکڑائی میں نیب کے ہاں بطور مہمان بھی رہ آئے اگلے دن ضمانت ہوئی تو میاں بیوی کچھ پرسکون نظر آئے اور اب تو جہاں وزیراعظم ہاؤس کا بورڈ لگا ہوا ہے اسی کے ساتھ بڑے دروازے پر نااہل وزیراعظم کے دونوں بیٹوں کے اشتہاری ہونے کے پوسٹر بھی لگ گئے ہے۔
پاکستان میں لوٹ مار کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں جنہوں نے اربوں روپے اکٹھے کیے مگر وہ بھی ابھی تک موصوف چھری مار کی طرح غائب ہیں کراچی ایسا شہر ہے جہاں کسی دور میں قتل وغارت معمول کا واقعہ ہوتا تھا کہیں بوری بند لاشیں ملا کرتی تھیں تو کہیں سرے عام گولیوں کی بارش کرکے درجنوں بے گناہوں کو خون میں نہلا دیا جاتا تھا وہ تو اللہ بھلا کرے ہماری انٹیلی جنس اداروں ،رینجرز اور فوج کا جنہوں نے کمال مہارت سے دہشت گردی کے اس جن کو قابو کرلیا اور ابھی تک کراچی پرسکون تھا مگر اچانک ایک شخص موٹر سائیکل پر نمودار ہواکراچی کی مختلف سڑکوں چلنے والی خواتین کو چھری سے زخمی کرنا شروع کردیا اور موصوف ابھی تک پولیس کی نظروں سے غائب ہیں میں بات کررہا تھا جب کراچی میں دہشت گردی عرج پر تھی اس کے بعد سندھ حکومت نے کراچی میں سیکیورٹی کے حوالہ سے بہت سی جگہوں پر کیمرے لگادیے تھے مگر بات پھر وہی پر آکر ختم ہوجاتی ہے کہ کمیشن مافیاکے ہاتھوں لگائے گئے کیمرے یا تو اسی وقت خراب ہوگئے یا پھر کچھ عرصہ بعد غائب کروادیے گئے یہی وجہ ہے کہ اب تک کراچی میں چھری مار شخص سرے عام گھوم پھر رہا ہے اور مختلف خواتین کو زخمی کردیا اور ایک چھری مار نے پوری سندھ حکومت کا بھرم کھول دیا ہے کہ وہاں کی پولیس اور باقی کے ادارے کتنے قابل اعتماد ہیں ہاں اس چھری مار نے پولیس کے جوانوں کا بہت فائدہ کردیا اب پولیس کا کام بن چکا ہے کہ جہاں بھی کوئی مظلوم اور مفلوک الحال شخص نظر آیا اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور چھری مار شخص کا شبعہ ظاہر کرکے اسے ڈرا دھمکا کر اس سے پیسے بٹورے اور پھر چھوڑدیا کراچی پولیس کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔
حالانکہ کراچی پولیس پہلے ہی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بری طرح ملوث ہے پولیس پیسے والے افراد کو اٹھا کرتھانے میں ہی بند کرکے اسکے گھر والوں سے تاوان کی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور اوپر سے چھری مار گروپ نے کراچی پولیس کی چاندی کردی ہے اور اب اوپر سے چھری مار شخص کی گرفتاری پر ناکامی پر پولیس کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی بہت زیادہ لے دے ہورہی ہے ایک طرف خواتین نے ڈر کے مارے گھر سے نکلنا بند کردیا ہے اسی حوالہ سے ہمارے ایک فیصل آبادی صحافی دوست ڈاکٹر تنویر نے خواتین کی شاپنگ سے تنگ آکر مظلوم شوہروں کی ایک تنظیم بنا لی اور کراچی میں خواتین کے اب باہر نہ نکلنے پر خوش ہیں اور اسی خوشی میں انہوں نے نامعلوم چھری مار کو ایک عدد خط بھی روانہ کردیا اس خط میں کراچی پولیس کی ناکامی کے ساتھ ساتھ شہریوں سے اظہار ہمدردی بھی کیا ہے مگر اصل میں انکے لفاظوں کے نشتر نے کراچی کی حکومت اور مقامی انتظامیہ کا پول کھول کررکھ دیا ہے اب آتے ہیں اس خط کی طرف جو انہوں نے نامعلوم چھری مار کی طرف روانہ کیا ہے۔
محترم جناب چْھری مار صاحب جنابِ عالی! گزارش ہے کہ مجھے کل دفتر سے تن خواہ ملی ہے اور اْسی وقت سے بیگم نے شاپنگ کا’’ رولا‘‘ پایا ہوا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ گلستانِ جوہر میں بے حد مصروف ہیں اور وہاں کی انجمن شوہران کی خواہش یہی ہے کہ آپ ایک لمحے کے لیے بھی وہاں سے کسی اور علاقے کا رْخ نہ کریں، مگر ہم غریبوں کی بھی آپ ہی سے توقعات وابستہ ہیں، لہٰذا اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے نکال کر دیگر علاقوں کا بھی ایک چکر لگا لیں، تو یہاں کے مظلوم شوہرانِ کرام بھی آپ کے بے حد شکرگزار ہوں گے۔ البتہ آپ سے مودبانہ استدعا ہے کہ اپنے ہمراہ چْھری ربڑ کی لائیں تاکہ کہیں جان، جان ہی سے نہ گزر جائے۔
شدت سے آپ کے منتظر رہیں گے یکے از رْکن ( مظلوم انجمنِ شوہران)