تحریر : رشید احمد نعیم حضرت فاطمہؓ نبی کریمﷺ کی سب سے محبوب صاحبزادی ہیں۔ �آپؓ کا لقب زہرا ہے ۔آپؓ بعثت نبویﷺ سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔آپؓ کی والدہ حضرت خدیجتہ الکبرٰی رسول اللہ ﷺپر ایمان لانے والی سب سے پہلی خاتون تھیں۔حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’جنتی خواتین میں افضل ترین خدیجہ،فاطمہ،مریم اور آسیہ ہیں‘‘۔ایک اورحدیث میں آپ کو تمام عورتوں کی سردار بھی کہا گیاہے۔حضرت فاطمہؓ کم عمری سے ہی نہایت زیرک اور حق پرست تھیں۔مکی دور کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک روز نبی پاکﷺ کعبہ کے قریب نماز ادا کرنے میں مصروف تھے کہ کفار نے آپﷺ کو ایذاء پہنچانے کا منصوبہ بنایا ۔’’عقبہ بن معیط‘‘نامی سردار جودیگر سرداران قریش کے ساتھ وہاں موجود تھااور آپ ﷺکو نماز ادا کرتے دیکھ رہا تھا ،وہاں سے اٹھا اور اونٹ کی اوجھڑی اٹھا لایا ۔اونٹ کی وزنی اوجھڑی اس نے سجدے کی حالت میںآپ ﷺکی پشت مبارک پر رکھ دی ۔اس دوران کسی نے حضرت فاطمہؓ کو اس واقعہ کی خبرکردی،یہ سن کر آپؓ خانہ کعبہ پہنچیں اور روتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اپنے والد کی پشت سے وہ اوجھڑی ہٹائی ،اورقریش کے ان سرداروں کے لیے بددعا فرمائی۔نبوت کے ابتدائی زمانے کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ بازار سے گزرہے تھے کہ ایک گستاخ کافر نے آپ ﷺکے سر اقدس میں مٹی ڈال دی اوراپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاگ نکلا۔آپ ﷺاسی حالت میں گھر واپس آگئے۔حضرت فاطمہؓ نے جب آپﷺ کی یہ حالت دیکھی تو رونے لگیں۔وہ آپﷺ کا سر دھوتی جاتیں اور فرط غم سے روتی جاتیں۔
آپ ﷺنے انہیں تسلی دی اور فرمایا ’’بیٹا صبر کرو!۔اللہ تمہارے باپ کا حامی وناصر ہے ۔وہ تمہارے والد کو قریش کی دست درازیوں اور ایذاء رسانیوں سے محفوظ رکھے گا۔حضرت فاطمہؓ کی شادی آپ کے چچازاد بھائی حضرت علیؓ سے ہوئی ،جنہوں نے بارگاہ رسالت میں ہی پروش پائی تھی۔نبی کریمﷺ نے پیغام نکاح پر حضرت فاطمہؓ کی خاموشی کو ان کی رضا مندی سمجھ کر قبول فرمالیا ۔حضرت علیؓ نے اپنی زرہ بیچ کر مہر ادا کیا۔نیز شادی کے سامان اور گھر کی ضروری اشیاء کا انتظام کیا۔غرض حضرت فاطمہؓ کا نکاح انتہائی سادگی سے سرانجام پایا۔آپ ﷺنے اس موقع پر خصوصی طور پران دونوں کے لیے دعا فرمائی۔حضرت فاطمہؓ نے نہایت سادہ اور پر مشقت زندگی بسر فرمائی۔گھر کے تمام کام خود سرانجام دیتیںیہاں تک کہ چکی بھی خود پیستیں،جس کی وجہ سے آپؓ کے ہاتھوں میں آبلے پڑ جاتے تھے۔گھریلو ذمہ داریوں میں مدد کے لیے آپؓ نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک لونڈی کا مطالبہ کیا۔آپ ﷺنے فرمایا ’’بیٹی !میں تمہیں ایسی بات نہ بتاوٗں ،جو لونڈی اور غلام سے بہتر ہو؟آپ بولیں’’میرے پیارے ابا جان! فرمائیے وہ کیا بات ہے ؟‘‘۔آپ ﷺنے انہیں نصیحت فرمائی کہ جب رات کو آرام کرنے لگو تو 33 بارسبحان اللہ33بارالحمداللہ33اللہ اکبرپڑھ لیا کروکیونکہ یہ لونڈی یا غلام سے بہتر ہے۔حضرت فاطمہؓ نے اصرار کرنے کی بجائے انتہائی سعادت مندی سے فرمایا کہ ’’میں اللہ اوراس کے رسول کی رضا پر راضی ہوں۔تسبیح کے یہ کلمات’’ تسبیحات فاطمہ‘‘کے نام سے معروف ہیں۔
اپنی محبوب بیٹی کے لیے نبی اکرم ﷺنے مال ودولت اور آسائشات کو پسند نہیں فرمایا۔ گویا حقیقی محبت کا پیمانہ یہ نہیں کہ جس سے محبت ہو،اس کے قدموں میں تمام دنیاوی نعمتیں ڈھیر کر دی جائیں،بلکہ محبت کا تقاضاہے یہ کہ محبوب ہستی کی آخرت سنوارنے کے لیے حتی المقدور کوشش کی جائے۔ آپؓ عادات واطوار اور حلیہ میں اپنے والد محترم سے مشابہت رکھتی تھیں،نیز بے حدسخی اور فیاض تھیں۔ رسول اللہﷺ کو حضر ت فاطمہؓ سے خصوصی لگاو ٗتھا۔وہ اپنے والد محترم کو دیکھتے ہی احتراما کھڑی ہو جاتیں۔اسی طرح حضرت فاطمہؓ جب آپ کے گھر تشریف لے جاتیں توآپﷺ بھی کھڑے ہوکر شفقت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے۔رسول اللہﷺ حضرت فاطمہؓ کو اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر چاہتے تھے۔ ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا ’’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ،جو چیز اسے اذیت دے ،اس سے مجھے اذیت ہوتی ہے اورجو بات اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے‘‘۔آپﷺ کی علالت کے دوران ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں۔آپ ﷺنے انہیں اپنے پاس بٹھا کرسرگوشی میں کچھ فرمایا،جسے سن کر وہ رونے لگیں۔آنحضور ﷺنے دوبارہ ان سے آہستہ آواز میں کچھ فرمایا ،جسے سن کر وہ مسکرانے لگیں۔آنحضور ﷺکے وصال کے بعد حضرت عائشہؓ کے دریافت فرمانے پر حضرت فاطمہؓ نے بتایاکہ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’اے فاطمہ! میرے وصال کا وقت قریب آگیا ہے اورمیرے گھروالوں میں سے تم سب سے پہلے مجھ کو ملو گی اور میں تمہارے لیے کتنا بہترین پیش روہوں۔‘‘اس موقع پر میں رو پڑی توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ تم تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار بنو؟اس بات پر میں ہنس پڑی ‘‘۔حضرت فاطمہؓ کو اللہ تعالی نے حضرت حسنؓ اور حسینؓ جیسے بے مثال بیٹے عطا فرمائے۔آنحضرت ﷺکا ارشادہے کہ ’’جس نے حسن اور حسین سے محبت کی ،اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بعض رکھا ،اس نے مجھ سے بعض رکھا۔ حضرت فاطمہؓ کو اللہ تعالی نے دو بیٹیاں حضرت زینبؓ اور ام کلثومؓ بھی عطا فرمائیں۔حیا ایمان کا لازمی جز وہے ۔خصوصا ایک عورت کا تو زیور ہی حیا ہے ،آپؓ میں ایمان کا یہ حصہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔
آپؓ حد درجہ حیا دار اور گوشہ نشین خاتون تھیں ۔ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے عورت کی بہترین صفت کے بارے میں پوچھا تو حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا کہ ’’عورت کی سب سے اعلی وارفع خوبی یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیرمرد کودیکھے اور نہ کوئی غیر مرداسے دیکھے۔آپؓ نے وفات سے پہلے اپنی تدفین کے بارے میں جو ہدایات فرمائیں،ان میں پردے کا خیال رکھنے بارے میں باتیں بھی تھیں۔حیا کا اس سے اعلی درجہ کیا ہوسکتا ہے کہ انسان موت کے بعد بھی اپنے پردے کا خیال سے غافل نہ ہو۔حضرت فاطمہ الزھراؓ کی وفات ہجرت کے گیارویں سال ماہ رمضان میں نبی پاک ﷺ کے وصال کے چھے ماہ بعد ہوئی،آپؓ کا انتقال رات کے وقت ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق انہیں رات کے وقت ہی دفن کیا گیا۔
Rashid Ahmed Naeem
تحریر : رشید احمد نعیم rasheed03014033622@gmail.com 03014033622