تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ّجناب وزیر داخلہ کا یہ فرمان کہ اللہ اور رسولۖ کی محبت پر کسی کی اجارہ داری نہیں اور یہ کہ قتل کے فتووں سے انارکی پھیلے گی میں احقر کوئی عالم دین تو نہیں مگر عرصہ دراز سے علماء ،صلحاوپیران عظام کے قدموں میں بیٹھنے اور ان کی جوتیاں ضرور سیدھی کرتا رہا ہوں اور حضرت مولانا سید ابو الااعلیٰ مودودی،حضرت مولانا شاہ احمد نورانی،حضرت مولانا مفتی محمود ،حضرت مولانا خان محمد آف کندیاں شریف،مولانا احسان الہٰی شہید کی صحبتوں میں بیٹھنے کا شرف حاصل رہا ہے اور ان اکابرین سے جو بھی علم حاصل ہوااس کی بدولت میں ضرور گزارش کرتا ہوں کہ مو جودہ حکومت نے ختم نبوت کے صرف حلف نامے میں ہی تبدیلی کرکے اسے اقرار کے لفظوں سے تبدیل کرکے اس کی بنیادی حیثیت ہی ختم کر ڈالی تھی بلکہ 2002کے قانون کی دفعہ 7(ذیلی دفعہC)کی بھی منسوخی کر ڈالی ہے جس سے اب مرتدین و زندیقین قادیانی یا لاہوری گروپ کے کسی ووٹر کو مسلمانوں کی ووٹر لسٹ سے نکالنے کا کوئی قانونی طریقہ باقی نہیں رہا( پہلے بھی آئین پاکستان اور ضیاء الحق کے دور میں کی گئی دیگرترامیم پر بھی کوئی قادیانی عمل نہیں کرتا اور اپنے ووٹ مسلمانوں کی ووٹر لسٹوں میں ہی لکھاتے رہے ہیں)ایسی موجودہ تبدیلیاں کرنے سے قطعاً کوئی غلطی نہیں ہوئی بلکہ بیرونی آقائوں کا حکم بجا لایا گیا ہے جو کہ وہ عرصہ دراز سے دیتے چلے آرہے تھے اور جو جو تبدیلیاں کی گئی ہیں ان سے صرف قادیانی ناسوروں کو چھوٹ دینا ہی مقصود تھا تاکہ وہ ممبر قومی اسمبلی بن کر اعلیٰ ترین عہدوں وزیر اعظم و صدر پاکستان تک پہنچ سکیں اور پھر اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پاک وطن کا نظام اپنے بڑے آقائوں امریکی سامراج اور اسرائیلیوں کے حکم بموجب چلا سکیں ۔
موجودہ حکمرانوں کا اس عمل میں خالصتاً اپنا مفاد صرف اتنا تھاکہ وہ مزید اقتدرا انجوائے کرسکیں اور یہ ثابت کرسکیں کہ موجودہ کردہ ترامیم جن کی بابت آپ ہمیشہ سے ہی ہر صدر اور وزیر اعظم کے امریکی دورہ پر مطالبہ کرتے آئے ہیں وہ ہم نے پوری کردی ہیں(واضح رہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی ان کے پی اے فاروقی جو کہ لاہوری مرزائی تھے نے بھی بیعنہہ یہی ترامیم آئین اور ممبران کے فارم نامزدگی میں کر ڈالی تھیں جس پر صدر نے اسے فوراً ملازمت سے ہی نکال دیا تھا اور مرزائیوں کا مفاد پورا نہ ہوسکا تھا)آپ سامراجی آقائو! اب ہمارے “رکھوالے بن جائو”کوئی ہمیں اقتدار کے تخت سے علیحدہ نہ کرسکے مگر جماعت اسلامی کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر جناب صاحبزادہ صفی اللہ اور جے یو آئی (ف)کے سینیٹرحافظ حمد اللہ نے قادیانیوں کے مفاد میں کی جانیوالی ترامیم کا بھانڈا ہی پھوڑ ڈالا اور صاحبزادہ صفی اللہ نے تو اس نئے بننے والے قانون میں ترامیم پیش کردیں جنہیں ن لیگی ممبران نے فوراً ہی مسترد کرڈالا کیونکہ ان کے ذہن پر تو سابق وزیر اعظم کواپنی پارٹی کا صدر بنانے کی دھن سوار تھی اس لیے انہوں نے یہ کافرانہ عمل ہوتے کی طرف توجہ تک بھی نہ دی اور نوازشریف کو پارٹی صدر منتخب کرلیا جو اب چار جنوری کی واپسی کا ٹکٹ کٹوا کر لندن جاچکے ہیںاب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ جب بھی کوئی شخص یا گروہ کفر کا ارتکاب یا اس کی کوشش کرتا ہے تو پھرفتویٰ انہی علماء کی طرف سے ہی آتا ہے جو کہ دینی علم کے حصول کے بعد مفتی کے عہدہ پر فائز ہو چکے ہوں اور انھیں فتویٰ دینے کی اجازت ہو ایسے فتاویٰ کسی وزیر اعظم یا صدر کی طرف سے تو جاری ہی نہیں ہوسکتے زبانی کلامی نبی اکرم ۖ کی محبت کے دعوے تو سبھی مسلمان اور حکومتی کارپرداز کرتے ہی رہتے ہیں مگر آپۖ کی رسالت پرعمل کے تقاضے کچھ اور ہی ہیںہر وہ شخص جو اسلام کی بنیاد سے مکر جائے وہ مرتد کہلائے گا اور ختم نبوت کی حیثیت کو آئینی طور پر کم کرنے والے ،اس کی قسم کھانے کی جگہ صرف اس کا اقرارکی ترمیم کرنے اور کروانے والے بھی ایسے ہی جرم کے مرتکب ہوئے ہیںاور جو شخص بھی ارادتاً ایسی غلطی یا غلطان کا ارتکاب کرتا ہے وہ مرتد اورزندیق ہی کہلائے گا جس کی کسی بھی صورت اسلامی شریعت کی رو سے معافی نہیں ہو سکتی ایسے افراد مرتد ہی کہلائیں گے جس کی سزا صرف اور صرف گردن زدنی ہی ہو گی۔
حکومتی وضاحتی بیانات کے بعد ضروری امر یہ ہے کہ جس جس نے غلطی کروانے کے لیے یہ تحریر تیار کی اور دیگر افراد اور ممبران اسمبلی کی آنکھوں میں دھول جھونکی وہی اصل مجرم ہیں اور حکومت کے لیے ان مجرموں کو اپنی ہی صفوں میں ڈھونڈنا کوئی مشکل امر نہ ہے صرف اور صرف وہی لکھاری جنہوںنے یہ تحریر محیر العقول طریقہ سے تیار کرکے پیش کی انہی پر مرتد کا فتویٰ جاری ہو گا دیگر افراد جنہوں نے قومی اسمبلی وسینٹ میں اس کی تائید کی کیونکہ انہوں نے اَن دیکھی پلید مکھی نگل لی ہے اس لیے کسی نہ کسی طور پر علماء کی نظر میں ان کی معافی تلافی ہوجائے گی۔مگر کفارہ انہیں بھی ادا کرنا ہو گا وگرنہ جس جس نے یہ کالا قانون پاس کیا ہے وہ بھی تو گناہ گار ہی تصور ہوں گے حکومتی وضاحتوں کے ذریعے کیونکہ اصل مجرموں کو چھپانے کی ناکام کوششیں کی جاری ہیں واضح ہے کہ ان کے اس مذموم عمل پر انہیں ان کے بیرونی سامراجی یہودی آقائوں کی بھی سرپرستی بلاشبہ حاصل ہو گی مگر حکومت کو جلد یا بدیر ان مجرموں کی نشاندہی پر مجبور ہو نا پڑے گا۔
خدائے واحد ہُ لاشریک کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں کہ میرا کوئی اشتعال انگیز کیفیت پیدا کرنا قطعاً مقصد نہ ہے میں تو اس مسئلہ کے لیے جلد حل کے لیے احسن اقدام تجویز کر رہا ہوں اگر میری آواز صدابہ صحرا قرار پائی تو حکومت کو خود جو پاپڑ بیلنے پڑیں گے وہ خود ہی اس کی ذمہ دار ہو گی سابقہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے خلاف اگر توہین رسالت کا مقدمہ کا اندراج کرکے کاروائی کر لی جاتی تو نہ ملک میں انتشار پھیلتا اور نہ ہی ممتاز قادری شہید اسے جہنم واصل کرتاوزراء کی پریس کانفرنسوں سے اصل مجرموں کو جس طرح چھپایا جارہا ہے اسی وجہ سے سوشل میڈیا یا جلسے جلوسوں میں ارتدادی فتوے جاری ہورہے ہیں جن کی دعوت خود حکومتی عہدے دار وں کا رویہ دے رہا ہے ۔محمد عربیۖ کی ختم نبوت کی حیثیت کو الفاظ کے گورکھ دھندا سے کم کرنے والوں کی ناپاک کوششیںکرنے والے مجرمین کو حکومت سزا دے ڈالے تو مزید ان کا اقتدار چل سکے گا وما علینا الا البلاغ۔