تحریر : رضوان اللہ پشاوری روڈ حادثات میں ہر آئے روز اضافہ ہوتا رہتا ہے، کبھی موٹر سائیکل حادثہ تو کبھی ایکسٹیڈینٹ میں ایسے شدید زخمی ہو جاتے ہیں کہ جن کی پہچان بھی نہیں کی جاتی،اسی طرح کا ایک واقعہ میرے بھائی”فہیم اللہ درویش”کے ساتھ ہوا،چند دن قبل وہ علی الصباح معمول کے مطابق دکان کی طرف نکل گئے،ان کی عادت یہ تھی کہ وہ پیادہ پا دکان آتے جاتے تھے،مگر کسی کو معلوم نہیں کہ آج ہی دنیامیں اس کا آخری دن ہے،وہ اپنے معمول کے مطابق پیادہ پا رواں دواں تھے،وہاں پر موت کا فرشتہ اس کے انتظار میں تھا،انہوں نے شائد بہت انتظار کیا ہوا تھاتو یہاں سے میرا بھائی کسی ساتھی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہوئے،ابھی منٹ دیڑھ کا سفر بائیک پر نہیں کیا تھاکہ اچانک جی ٹی روڈ پر سائیکل سوار سامنے آیا،اب یہ لوگ سائیکل سوار سے اورٹیک ہی کر رہے تھے کہ اتنے میں اُس سائیکل سوار نے پیچھے کی طرف موڑ کر دیکھا تو اس سائیکل سوار کے دانتوں اور چہرہ سے ایک نور نکل گیا اور یوں ہی میرا بھائی موٹر سائیکل سے گر کر ڈنپر کے نیچے آگئے،ڈنپر کے آخری دونوں جوڑوں میں سے ایک جوڑے نے اس کے سر کو کچھل دیا تو دوسرے جوڑے نے اس کے سینہ کو چھیر کر دیااور یوں ہی فہیم اللہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
میں مدرسہ میں تھا،ابھی میرا چوتھا گھنٹہ(زادالطالبین)کا شروع ہونے والا تھا کہ اچانک موبائل فون بجھنے لگا،موبائل کی سکرین دیکھی ،تو کال میرے چچازاد بھائی عمران حسن(پرنسپل کامران پبلک سکول)نے کیا تھا،کال اٹینڈ کیا تو وہ بھی غم کے مارے باتیں نہیں کر سکتے تھے،پھر میں نے بھی کئی دفعہ کال ملائی مگر وہ کچھ نہ بول سکے آخر کار کسی اور کو موبائل دے کر اس نے مجھے کہا کہ فہیم اللہ نے ایکسٹیڈنٹ کیا ہے اور وفات پا چکا ہے،ادھر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی،کچھ احساس نہیں رہا،فوراً جامعہ کے ناظم تعلیمات(مفتی محمد طیب)کے پاس گیا اور انہیں واقعہ سے باخبر کیا،میں جامعہ سے نکل ہی رہا تھا،کہ جامعہ کے ایک طالب علم محمد عباس نے آواز دی اور وہ میرے رفیق سفر بنے،ہم یہاں(جامعہ علوم القرآن،رنگ روڈ،نزد حیات آباد پشاور)سے ٹیکسی میں سوار ہوگئے ،یوںہم دونوں پبّی ہسپتال پہنچ گئے۔
جیسے ہی میں ہسپتال پہنچا تو فوراً ایمر جنسی کی طرف روانہ ہوا،وہاں پوسٹ مارٹم والے ہال میں بھائی کی پوسٹ مارٹم ہو رہی تھی ،ہم باہر بیٹھے انتظار کر رہے تھے کہ اتنے میں پولیس پہنچی اور میرے سے ہم کلام ہو گئے ،میں نے کہا کہ مجھے تو خود ابھی اطلاع ملی اور میں وہاں سے یہاں آپہنچا،خیر پوسٹ مارٹم کے بعد ہم نے اپنے بھائی کو کندھا دے کر جامعہ نعمانیہ بانڈہ نبی پبی لے آئے،کیونکہ اگر ہم ان کی اس نعش کو گھر لے جاتے تو وقت جنازہ تک شائد کہ اس کے تابوت کو درست پاتے،بالآخر نماز جنازہ کا وقت قریب آتے ہی ہم نے بھائی کے تابوت کو کچھ وقت کے لیے گھرکے اندر کردیا۔
مرحوم کی نماز جنازہ استاذی وشیخی،استاد العلماء صاحب المعقول ولمنقول حضرت مولانا محمد شعیب حفظہ اللہ ورعاہ نے بانڈہ نبی کی جنازہ گاہ میں پڑھائی ، نماز جنازہ کے بعد مرحوم کو اپنے آبائی علاقے کے قبرستان میں والدہ محترمہ کی آخری آرام گاہ کے قریب سپردِ خاک کردیا گیا، تدفین کے وقت میرے سسر محترم حضرت مولانا زبیراحمدحفظہ اللہ ورعاہ نے لوگوں کو موت کی خوب تلقین فرمائی، آخر میں محبوب العلماء والصلحائ،درویش صفت انسان اور مولانا احمد لاہوری کے حقیقی وارث قاری محمد اسلم اور میرے لڑکپن کے دوست مولانا قاری مدثر حفظہ اللہ نے تلاوت کیں،آخر میں استاد العلماء حضرت مولانا محمد زاہد عابد پشاوری حفظہ اللہ (مسؤل وفاق المدارس العربیہ پاکستان،ضلع کرم ایجنسی)نے دعا فرمائی۔
مرحوم خود بھی جمعیت کے بے لوث خادم و مخلص کارکن تھے، چند ماہ پہلے اضا خیل میں منعقد ہونے والے عظیم الشان صد صالہ اجتماع کے موقع پر بطور رضا کار 3 دن تک خدمات سر انجام دیئے تھے ،اپنے لیے رضاکاروں کی وردی بنائی تھی،علماء وصلحاء کے ساتھ بے لوث محبت رکھتے تھے،یہی وجہ تھی کہ مرحوم کے نمازجنازہ میں سینکڑوں علمائ، شیوخ الحدیث اور طلبہ کرام نے شرکت کیںاور چند دن بعد جمعیت علمائے اسلام کے ایک درویش صفت انسان اور سابق وزیرمفتی کفایت اللہ صاحب نے تشریف لایا ،مجھے مفتی صاحب نے کال کیاان دنوں میں چونکہ پشاور میں تھا ،میرے دوسرے بھائی سبحان اللہ پشاوری نے ان کی خوب خاطر مدارت کی انہوں نے دعا کی اور مرحوم کی تعریفات میں کافی وقت لگا لیا بعد ازاں مفتی صاحب رخصت ہوگئے۔
نوجوان مرحوم کی موت ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے اور خاص کر نوجوان طبقہ کے لئے ، عام طور پرلوگوں کا یہ ذہن ہوتا ہے کہ کہ بڑھاپا آئے گا ، بیماری آئیگی، پھر کھبی جا کر موت آئے گا۔ یہ سوچ سراسر غلط ہے کیونکہ موت تو ہر وقت ہمارے سر پر ہوتا ہے ، موت جوانی میں بھی آسکتی ہے ، کھانا کھاتے وقت، کھیلتے وقت،سوتے وقت ، عرض یہ کہ ہر وقت آسکتی ہے ۔ ہمارے پاس تو اگلے ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں ، خدا جانے کب موت آجائے اور اس عارضی زندگی کا خاتمہ ہو جائے ، اس لئے ضروری ہے کہ ہر وقت موت کو یاد رکھے ، نیک اعمال کرے ، نماز وقت پر ادا کرے ، کس پر ظلم نہ کرے ، بے جا حق کسی کا حق نہ مارے ، ہر وقت موت کو سامنے رکھے۔
عربی زبان کا بہت مشہور شعر ہے ،جس کا ترجمہ ہے کہ جب تم مردوں کو کندھوں پر اٹھا کر قبرستان لے جاتے ہو تو خیال کرو کہ اس کے بعد تم کو بھی اٹھایا جائے گا۔
اگر ہر کوئی یہ خیال کرے کہ ایک دن ہمیں بھی مرنا ہے تو کیا کوئی گناہ کے قریب بھی جائیگا ؟ ہر گز نہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو قبل از موت ، موت کی صحیح تیاری نصیب فرمائے اوراللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرما کر جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور رشتہ داروں و دوست احباب کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔(آمین)
Rizwan Ullah Peshawari
تحریر : رضوان اللہ پشاوری مدرس جامعہ علوم القرآن پشاور ناظم سہ ماہی ”المنار”جامعہ علوم القرآن پشاور انچارج شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ علوم القرآن پشاور 0313-5920580 rizwan.peshawarii@gmail.com