تحریر : شاہ بانو میر کتنے ہی دنوں سے ہفتوں سے وطن عزیز کے حالات حاضرہ کے تیزی سے تبدیل ہوتے معاملات پر کچھ لکھنا چاہ رہی تھی٬ ٌگتھی تھی کہ سلجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی٬ کوئی سِرا ہاتھ نہیں آرہا تھا ٬ کہ آخر اس وقت کے طوفانِ بد تمیزی کا آغاز کہاں سے ہوا اور کہاں یہ اختتام پزیر ہوگا؟ دنیا تیزی سے آگے بڑہتی جا رہی ہے٬ ترقی کا نہ رکنے والا دور لمحہ لمحہ ہمیں جدید ترین ایجادات سے متعارف کروا رہا ہے۔
ہر شعبہ زندگی میں انتہاء کو چھوتی تحقیقات نہ دنیا کا ماحول تبدیل کر کے رکھ دیا ہے٬ واحد امت ہماری ہے جو دنیا کے ہر خطہ میں زوال پزیر ہے٬ ایسا کیوں ہے؟ تاریخ اسلام میں خلفائے راشدین کے دور کا ذکر کچھ راز افشا کر گیا ٬ حضرت ابو بکر کے علاوہ باقی تینوں خلفاء شہید کیوں ہوئے ؟ حضرت ابو بکر صدیق کا دور شروع ہوا اور فورا ہی دو اہم اختلافی معاملات نے سر اٹھایا ٬ جن کی فوری طور پے سرکوبی کر کے انہی ختم کیا گیا۔
وہ مسلمان جو آپﷺ کے بعد شریف النفس نرم طبیعت ابو بکر صدیق ؓ کے ماتحت آئے ٬ عام انسان انہیں انتہائی منکسر المزاج انسان سمجھتا تھا٬ مگر جیسے ہی ان کے دورِ خلافت میں نبوت کے دعویداروں کے ساتھ ساتھ منکر زکوة سامنے آئے تو آپﷺ کے بعد ماحول میں رچی افسردگی اور آپﷺ کے بعد چھائی افسردگی کو بھانپتے ہوئے اس وقت کے کئی معتبر صحابہ کرام نے عمر ؓ سمیت یہ مشورہ دیا کہ آپ اس وقت ان باغیوں کی سرکوبی کا فیصلہ مؤخر کر دیں٬ یہ نہ ہو کہ دین کسی ابتلاء کا شکار ہو جائے یا اس وقت یہ باغی باہمی بگاڑ پیدا کر دیں٬ حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت عمر کو جواب میں کہا اے عمر تجھے کیا ہوا ہے؟ زمانہ جاہلیت میں تو تو بہت بہادر اور مضبوط انسان تھا۔
کیا میں دین کو تبدیل ہونے دوں؟ جبکہ ابھی میں زندہ ہوں ؟ ہر گز نہیں خُدا کی قسم جو لوگ آپﷺ کے زمانے میں زکوة کے ساتھ اونٹ کو باندھنے کی رسی دیتے تھے اگر وہ رسی دینے سے انکار کریں گے تو میں پھر بھی ان سے جنگ کروں گا٬ یہ تھا وہ رویہ جو اسلام کی ہمیشہ کی ضرورت کل بھی تھا آج بھی ہے کوئی سمجھوتہ نہیں٬ اصل “”طاقتور جڑ”” اسلام کے شجر کو جس نے تناور سایہ دار بنایا٬ اور یہ ابو بکر صدیقؓ کا کمال نہ تھا بلکہ وہ آپﷺ کے زیر سایہ تربیت پا چکے تھے٬ آپﷺ کو انہوں نے انتہائی نرم طبیعت پایا مگر جہاں جہاں اسلام کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ سامنے دیکھتے تو پھر کسی سمجھوتے کی گنجائش نہ رکھتے اور اٹل فیصلہ کر کے دشمن کو زیر کرتے٬ بنی اسرائیل وہ امت ہے جس کے پاس نبوت کا تاج دو ہزار سال تک رہا ٬ 14 سو سال تو ایسے تھے کہ ایک نبی اگر وفات پاتا تو دوسرا نبی اسی وقت خلیفہ منتخب ہو جاتا تا کہ امت تنہا نہ رہے۔
حضرت داؤد حضرت سلیمان اپنے وقت کے بادشاہ بھی تھے خلیفہ بھی تھے اور نبی بھی٬ نبوت کا صدیوں سے ملا تاج فرزندِ عرب کے پاس آگیا یہ انہیں کسی طرح گوارہ نہ تھا٬ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا تعصب بڑہنے لگا اور برداشت کی حدیں پار کرنے لگا٬ اور ان کا نمائیندہ عبداللہ ابن سواع مسلمان کے روپ میں نمودار ہوا سوچے سمجھے طے شدہ منصوبے کے تحت عربوں میں باہمی چپقلش کو ہوا دینے آیا ٬ قبائلی چپقلش کو بڑہا کر اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں کامیاب ہو گیا٬ اس نے ہر سمت ایک ہی فتنہ پھیلایا ٬ کہ آپﷺ بنو ہاشم سے تھے اس لئے حکومت کرنے کا اختیار صرف ان کے قبیلے کو ہے۔
نہ حضرت ابو بکر نہ عمر نہ عثمان یہ حق رکھتے ہیں٬ انتشار بڑھا اورپھر گروہ در گروہ مسلمان تقسیم ہوتے چلے گئے٬ حضرت عمر کو سلطنت ایران کے خاتمے کے بغض میں شہید کروایا گیا٬ ان کے بعد حضرت عثمان کو ان کے دور میں سازشوں کے ذریعے اور افواہوں کو پھیلا کر مالی خُرد بُرد کے الزام لگا کر پریشان کرنے کی کوشش کی گئی ٬ ان الزامات کے جواب حضرت علی نے خود دے کر ہر الزام غلط قرار دیا٬ طریقہ کار تھا کہ ذرائع نشر و اشاعت کیونکہ نہ ہونے کے برابر تھے لہٰذا یہ ایک علاقے میں دوسرے علاقے کے سرکاری عہدہ داران کے خلاف مالی خُرد بُرد کے الزام پھیلاتے ٬ دوسرے علاقے کے گورنر کو ملزم اور عثمان ؓ کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر لوگوں میں نفرت پیدا کرتے۔
حضرت عثمان شاندار اور طویل و عریض سلطنتوں کے فرماں رواں تھے٬ ہر علاقے کا گورنر بھاری بھرکم لشکر رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ آپ اسے اجازت دیں اور وہ آکر ان کو تہ تیغ کرے مگر آپ ایک ہی جملہ کہتے تھے کہ میں اپنی ذات کیلئے کسی کلمہ گو کی جان نہیں لوں گا٬ بِلاخر انہوں نے گھر پر پہرہ دیتے ہوئے حسن حسین کو خبر بھی نہ ہونے دی پچھلی دیوار پھلانگ کر قرآن مجید پڑھتے عثمان ؓ کو شہید کر گئے٬ ان کی شہادت کے بعد زبیرؓ ٬ طلحہؓ علیؓ کوئی بھی خلیفہ بننے کو تیار نہ تھا٬ مگر امت کو مایوس ہو کر تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا لہٰذا حضرت علی نے بیڑہ اٹھایا ٬ مگر حضرت زبیر حضرت طلحہ حضرت امیر معاویہ نے بیعت کرنے سے انکار یہ کہ کر کیا کہ ہم بیعت کریں گے مگر آپ پہلے قصاص عثمان لیں٬ جو اس وقت کے حالات میں نہیں لیا جا سکا٬ حضرت علی کا ساڑھے چار سالہ دور جنگ و جدل اور انتشار میں گزرا اپنوں کی ناراضگی نے طاقتور نظام کو اندر سے ہی کھوکھلا کر دیا۔
امیر معاویہ کے ساتھ صلح کیلئے کی گئی کوشش کے خلاف خود ان کے لشکر کے لوگ انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور جنگ نہروان کے نام سے حضرت علی نے ان کو شکست فاش دی٬ جس کے بعد انہوں نے ایک بڑی میٹنگ کی اور اعتراف کیا کہ ہم جنگ میں تو علیؑ کو شکست نہیں دے سکتے یوں کرتے ہیں کہ عمر بن العاص معاویہ اور حضرت علی کو ایک ہی دن قتل کرتے ہیں تا کہ یہ بات جڑ سے ختم ہو (اسلام کا نفاذ درست انداز سے ان کے خیال میں نافذ کیا جا سکے ) 40 ھ کو رمضان المبارک میں فجر کے وقت عمر بن العاص پر حضرت علی پر گھرسے نکلتے اور امیر معاویہ پر بھی ایک ساتھ ہی حملہ کیا گیا۔
عمر بن العاص تو اس دن نہیں آئے ٬ حضرت معاویہ کو وار آڑھا لگا بچ گئے٬ ابن ملجم کے وار سے حضرت علی کو گہرے زخم آئے اسے پکڑ لیا گیا٬ آپ نے کہا کہ بچ گیا تو تو خود نمٹوں گا مر جاؤں تو قصاص لے لینا٬ حضرت عمر حضرت عثمان حضرت علی تک کے تین خلفائے راشد کا قتل اندرونی شورشوں کا شاخسانہ تھا٬ آپﷺ کے زمانے میں جن لوگوں نے شہادتیں دیں وہ اسلام کو قائم کرنے کیلئے اور بعد میں جو المناک شہادتیں ہوئیں وہ اسکو قائم رکھنے کیلئے ہوئیں ٬ مشرقی یورپ تک اسلام کا پہنچنا سلطنت روم کے دو جزو کا خاتمہ اور ایرانی سلطنت کا مکمل خاتمہ اسلامی فتوحات اور اسلامی حکمرانوں کی بہادری کا منہ بولا ثبوت ہیں۔
ان کو خارجی تو نہ ہرا سکے نہ مٹا سکے اور نہ پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکے٬ مگر یہ طاقتور عمارت وقت کے تھپیڑوں سے نہیں اندرونی طاقتوں کے باہمی انتشار سے زمین بوس ہونے لگی٬ اسلام کے فرزند جب اہم معاملات میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے سے انکاری ہوئے اور اپنی اپنی طاقت کے بل بوتے پر جماعتی اتحاد کو پارہ پارہ کرتے ہوئے گروہی طاقت کو فروغ دینے لگے تو اجتماعی دینی قوت نحیف ہونے لگی۔
جس کا نتیجہ وقت کے خلفاء کا یوں شہید کیا جانا تھا٬ خلیفہ یا سربراہ یا حاکم وقت ترقی اور کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے٬ اس چلتے رواں پہیے کو روکنا دشمنوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے جیسے ہی یہ رُکتا ہے اس کے بعد قوموں کے طویل آزمائشی دور شروع ہوتے ہیں پھر نسلوں کے بعد جا کرکہیں دوبارہ وہی نظام وہی طاقت حاصل ہوتی ہے٬ اسلامی شاندار فتوحات اور اسلامی حکمرانوں کو علامہ اقبال نے اسی لئے تو ان شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
کہ یہ گرد و غبار اڑاتے گھوڑے بھگاتے بے خوف و خطر اپنے اللہ کے بھروسے پر اپنے نبیﷺ کے حکم پر کہ جو یہاں موجود ہے وہ غیر حاضر تک پیغام پہنچائے٬ اس حکم کی اطاعت کیلئے کیسے شہ زور اس طاقت کے ساتھ بڑھے کہ تاریخ بھی انگشت بدنداں رہی٬ جو جو ان لشکروں کی طغیانی کو دیکھتا کہ وہ ایک ہی سوچ کے ساتھ آگے اور آگے بڑھ کر فتوحات ِ اسلامی کی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں کہ توکل باللہ اپنے اخلاص پر یقین محنت سے کوشش کرنے والے خود کہتے سنائی دیتے تھے کہ مقاصد ابھی تو بہت ہیں انہیں حاصل کرنا ہے اسی لئے تو تھمتا نہ تھا کبھی یہ سیلِ رواں ہمارا ٌ جاری ہے۔