تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل ڈو مور کے مطالبات چاہے پاکستان کے اندر سے ہوں یا باہر سے، مطالبات نے افراتفری میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور دشمن افرتفری کی اس فضا میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے در پے ہے۔تمام اداروں کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے ، اپنے بیانات سے ملک میں افراتفری کو فروغ دینے سے گریز کرنا چاہئے۔
پاکستان کے لئے ڈو مور ایک جانا پہچانا لفظ ہے۔ڈو مور کے اردو معنی ہیں،مزید کریں۔دراصل ڈو مور لفظ نے پاکستان میں خاصی شہرت حاصل کرلی ہے،ڈو مور ایک مطالبہ ہے جو برسوں سے امریکہ پاکستان سے کرتا آ رہا ہے۔اس امریکی مطالبے سے جہاں پاکستانی عوام اکتا گئی ہے ،وہیں لفظ ڈو مور بھی نو مور کہنے پر مجبور ہے۔مگر سپر پاور امریکہ اور ٹرمپ حکومت کی سمجھ سے سب کچھ بالاتر ہے۔اسکے پیچھے کچھ پہلو ہو سکتے ہیں،ٹرمپ کے خوشامدی ٹولے،ٹرمپ پسند ممالک کی چہہ مگوئیاں اور ٹرمپ کے پاس ناقص علم اور نامکمل و حقیقت کے برعکس معلومات وغیرہ۔یہ پہلو تو واقعی سچ ہے کہ پاکستان حکومت کا امریکی بہکاوے میں بار بار آنا یا پھر پابندیوں سے بچنے کی مجبوری۔جو بھی ہو امریکی چالاکیاں سر فہرست ہیں۔
ورنہ پاکستان نے جتنا ڈومور پر عمل کیا ہے شاید ہی کوئی اور ملک کر پائے۔ڈو مور کی اہمیت کا اندازہ لگائیے کہ امریکی صدر ڈومور کو اپنے بیانات کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔کرم ایجنسی سے پاک فوج کے آپریشن سے بازیاب ہونے والے کینڈین جوڑے پر واشنگٹن میں امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستانی حکام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امن کے لئے پاکستان نے ہمارے ڈومور مطالبے کو تسلیم کرلیا۔ٹرمپ کے نزدیک پاک امریکہ تعلقات کا اصل آغاز اب شروع ہوا ہے۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ پاکستان کے مفاد میں رہے۔دوسری طرف ترجمان دفتر خارجہ پاکستان زکریا نفیس نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور پاکستان نے مل جل کر مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کا اعادہ کر لیا ہے۔گزشتہ روز خواجہ آصف نے بھی کہا کہ امریکہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرے ہم آپریشن کریں گے۔مانتے ہیں کہ پاکستان کی ہمیشہ خارجہ پالیسی یہی رہی کہ تمام ممالک سے بہتر تعلقات استوار کئے جائیں۔مانتے ہیں امریکہ سپر پاور ہے،پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتا ہے۔تعلقات ضرور قائم کئے جائیں اصولوں کی بنیاد پر برابری کی بنیاد پر اور اپنی خودمختاری و سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے۔گزارش ہے کہ امریکہ سے تعلقات کی مجبوری میں ملکی خودمختاری و سلامتی پر کوئی حرف نہیں آنا چاہئے۔بات رہی ٹرمپ کی کہ امریکی تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں۔
بالکل غلط! یہ تو پاکستان ہی جانتا ہے کہ ان تعلقات کی مد میں پاکستان کو خسارہ ہی خسارہ ہوا۔ضرورت کے وقت ہمیشہ امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا اور جب کبھی پاکستان کو امریکہ کی ضرورت پڑی تو امریکہ نے ہمیشہ دھوکا دیا بلکہ بعض موقعوں پر پاکستانی مخالفین کی حمایت بھی کی۔پاکستان امریکی ڈو مور کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے ستر ہزار سے زائد شہریوں کی جانیں گنوا بیٹھا ہے۔معیشت کا بیڑا غرق کیا۔مگر امریکہ بجائے شاباشی کے آج بھی پاکستان کے کردار پر شک کرتا ہے۔شک کی بنا پر امریکہ نے بدستور پاکستان کے ساتھ دھمکیوں اور ڈو مور کا مطالبہ قائم رکھا ہوا ہے۔اگر پاکستان امریکہ کے آگے جھک کر تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے تو یہ ہماری خودمختاری و سلامتی کے منافی ہے،اور ہمارا مذہب بھی ایسے تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔پاکستانی حکومت کو اپنے خدشات بارے امریکی حکومت کو آگاہ کرنا چاہئے تاکہ امریکہ اپنی دھمکیوں سے باز آجائے اور مساوی تعلقات کو فروغ دے۔
اگر آج ہماری قوم اور حکومتوں نے ڈومور کے معاملے کو سنجیدگی سے نہ سمجھا تو صدیوں تک ہماری نسلیں ڈومور کے مطالبے ہی پوری کرتی رہیں گیں چاہے مطالبہ امریکہ کی طرف سے ہو چین کی طرف سے ہو یا کسی اور بڑی پاور کی طرف سے۔قارئین ویسے تو پاکستان میں عسکری قیادت کی طرف سے جمہوری حکومتوں کو ڈو مور کے مطالبے کی روایت بھی عرصہ سے چل رہی ہے۔مگر گزشتہ روز سے معیشت کی بات زیر بحث ہے جس پر آرمی کے ڈو مور کے مطالبے کو حکومت نے رد کیا اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔عسکری ترجمان نے حکومتی ترجمان کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ فوج اپنے مؤقف پر قائم ہے۔مختلف زرائع کے مطابق حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔فل حال دونوں سے ہی گزارش ہے کہ بیان بازی سے گریز کریں اور مل جل کر خدشات دور کریں،حکومت اور عسکری قیادت دونوں ہی ملک کے لئے اہم ترین ہیں ایک لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں اور دوسروں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔افراتفری کو فروغ دینے کی بجائے تحمل سے کام لینا چاہئے تاکہ دشمن کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ پہنچے اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔