شاید کسی کی یاد کا میلہ لگا بھی ہو اس شامِ انتظار سے گرچہ گِلہ بھی ہو لیکن کبھی تو ذات سے کچھ ماورا بھی ہو یہ کیا کہ آس پاس ہوں بس ایک جیسے لوگ اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو وہم و گماں کے بیچ میں اٹکی ہے زندگی دیکھو کہ میرے واسطے وہ در کھلا بھی ہو ہر بار اس کے سامنے ہاروں میں شوق سے لیکن بساطِ عمر کا کچھ سلسلہ بھی ہو ترکِ تعلقات کے اجڑے مزار پر شاید کسی کی یاد کا میلہ لگا بھی ہو وہ شخص میری خامشی لفظوں میں ڈھال کر ہونٹوں پہ میرے روز و شب نغمہ سرا بھی ہو کرنی ہوں جس سے راز کی باتیں بیاں زریں لازم ہے ہم خیال ہو اور ہم نوا بھی ہو