تحریر : علی عبداللہ ایک مشہور ٹی وی چینل پر سلام زندگی نامی مارننگ شو دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ تقریباً 25 منٹ اسے دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ اس سے زیادہ غیر معیاری اور غیر تعمیری پروگرام شاید پہلے کبھی نشر نہیں ہوا ہو گا ۔ میزبانوں اور مہمانوں کا انداز گفتگو اور پروگرام کا موضوع نہایت سطحی تھا ۔ چینل گھمایا تو ایک اور مشہور خبروں کے چینل پر سوئی ہوئی آنکھوں اور بے رونق چہرہ لیے میزبان کسی بھی بات کو صحیح اردو میں پیش کرنے سے قاصر تھیں ۔ موصوفہ کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ لائیو کال پر کتنا وقفہ دے کر بولنا ہے اور بعض دفعہ تو وہ کالر کی بات کاٹ کر اپنی نئی بات شروع کر دیتی تھیں ۔ یہاں سے طبیعت بوجھل ہوئی تو اگلے چینلز پر نشر ہونے والے مارننگ شوز میں شادی بیاہ، تیلی قسم کی ماڈلز کی ماڈلنگ اور بیوٹیشنز کے نا سمجھ آنے والے ٹوٹکوں نے مزید دل آزاری کی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان پروگرامز کو دیکھنے والے تالیوں پر تالیاں بجا کر ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کر رہے تھے جو کہ درحقیقت ان کے اپنے وقت کے ضیاع کی خوشی کی تالیاں ہی تھیں ۔
ایک وقت تھا جب صبح کا مطلب پرندوں کا چہچہانا، اور طلوع سحر کے منظر میں نئی امیدوں اور امنگوں کے ساتھ جوش اور ولولے کو جنم دے کر دن بھر کو تعمیری بنانے کی منصوبہ بندی ہوا کرتی تھی ۔ لیکن وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ معنی بھی ٰ بدل چکے ہیں ۔ اب لوگوں کی صبح تب تک نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے پسندیدہ میزبان کا مارننگ شو نہ دیکھ لیں ۔ پوری دنیا میں مارننگ شو کو ناظرین کے لیے تعمیری اور مثبت بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ان پروگرامز میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے دلچسپی کا سامان موجود ہوتا ہے لیکن جب پاکستانی مارننگ شوز کی بات آتی ہے تو کہانی بالکل مختلف انداز اختیار کر لیتی ہے ۔ مارننگ شوز کے لیے نہ صرف میزبان کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہوتا ہے بلکہ ان موضاعات پر بھی علم اور گرفت ہونا لازم ہوتا ہے جن پر میزبان نے پروگرام کرنا ہوتا ہے ۔لیکن ہمارے ہاں اس شے کا فقدان دیکھنے میں آتا ہے ۔
1950 سے 1952 تک چلنے والے تھری ٹو گٹ ریڈی پروگرام کو پہلا مارننگ شو کہا جاتا ہے ۔ کامیڈین ارنے کواکس کی میزبانی میں فلاڈلفیا سے نشر ہونے والے اس پروگرام میں مزاح، خبریں اور موسمی حالات کو پیش کیا جاتا تھا ۔ اس کے دیکھا دیکھی دیگر ممالک کے ٹیلیویژن نیٹ ورکس نے بھی مختلف موضاعات کے ساتھ ایسے پروگرامز کا آغاز کیا ۔ 1970 کی دہائی میں ان پروگرامز نے مزید پزیرائی حاصل کی اور ہر ٹی وی سٹیشن نے اپنا مارننگ شو پیش کرناشروع کر دیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے مارننگ شو مقبول ہوتے چلے گئے ۔ پاکستان میں مارننگ شو کا آغاز 1988 میں مستنصر حسین تارڑکے پروگرام صبح بخیر سے ہوا ۔ السلام علیکم، سارے پاکستان اور پیارے پاکستان کے ابتدائیے کے ساتھ اس پروگرام نے نہایت پزیرائی حاصل کی ۔صبح بخیر ایک بہترین پروگرام تھا جس میں ہر عمر کے افراد کے لیے معلوماتی اور تخلیقی مواد شامل ہوتا تھا چاہے وہ بچے ہوں یا بوڑھے ، آرٹ سے دلچسپی رکھنے والے ہوں یا موسیقی کے دلدادہ یا پھر علم و ادب کے پیاسے ، ہر طبقے کے لیے یہ پروگرام یکساں مقبولیت کا حامل تھا ۔اس کے بعد جیسے جیسے ٹی وی ترقی کرتا گیا اور چینلز کی بارش ہوئی تو مختلف چینلز نے اپنے اپنے انداز میں صبح کے پروگرام نشر کرنے شروع کر دیے ۔ اب تقریباً ہر چینل پر مارننگ شو نشر ہونا اس چینل کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے ۔
مارننگ شو ایسے وقت میں نشر ہوتے ہیں جب عموماً مرد اپنے دفتروں کو اور بچے اپنے سکولوں کو جا چکے ہوتے ہیں اور تب زیادہ تر گھریلو خواتین ان پروگرامز کو نہایت ذوق و شوق سے دیکھ رہی ہوتی ہیں ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خواتین کے لیے یہ پروگرام کسی بھی قسم کا تعمیری مواد پیش کرنے میں اب تک ناکام ہیں ۔ ان گھریلو خواتین کے پاس مارننگ شوز میں دیکھنے کو بس شادی کے انتظامات، دلہا دلہن کے چونچلے ، ہندوستانی گانے اور اس پر ناچنا ہی ہے ۔ چونکہ ایسے شوز دیکھنے والوں کی بڑی تعداد خواتین کی ہے تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ انہیں بہتر بیوی اور اچھی ماں بننے کا سلیقہ بتایا جاتا ۔ لیکن اس کے برعکس مارننگ شوز میں بے ہودہ انداز گفتگو اور غیر معیاری موضوعات پیش کیے جاتے ہیں جنہیں دیکھنا اور برداشت کرنا مشکل ہے ۔ ان شوز نے عوام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں جو کہ معاشرے میں ڈیپریشن اور ذہنی انتشار کا باعث بنتے ہیں ۔
مارننگ شوز میں ازدواجی مسائل پر بھی خصوصی نظر رکھی جاتی ہے ۔ آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی عورت ڈھونڈ لی جاتی ہے جو گھریلو زندگی کا رونا رو رہی ہوتی ہے اور اپنے شوہر کو دنیا کا ظالم ترین مرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے ۔ ایسے میں انہیں کون سمجھائے کہ آخر وہ پورے معاشرے کے سامنے اپنے خاوند کی برائیاں اور گھریلو مسئلے ظاہر کر کے کس کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ جبکہ اس ساری صورتحال میں میزبان اور ناظرین مگرمچھ کے آنسو بہانے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔
پاکستان میں مارننگ شو کا میزبان بننے کے لیے چند اہم خصوصیات کا ہونا ضروری ہے جن میں میزبان کا خاتون ہونا، میزبان کا شادی شدہ ہونا تاکہ پورے شو کو شادی کے موضوع پر ہی گھمایا جا سکے اور اس کے فوائد اور مسائل بیان کیے جا سکیں لازمی ہیں ۔ اسکے بعد پروگرام کرنے والی میزبان کے اندر مسلسل بولنے کی خوبی ہونی چاہیے اور اس میں احمقانہ حد تک اعتماد بھی ہو تاکہ وہ فاش غلطیاں کر کے بھی انہیں نظر انداز کر سکے ۔ان سب کے بعد میزبان اور مہمانوں میں ہندوستانی گانوں پر ناچنے کا سٹیمنا ہونا چاہیے اور یہ بھی خوش فہمی ہونی چاہیے کہ احمقانہ انداز اور گفتگو کے بعد بھی لوگ آپ کو چاہتے ہیں اور سکرین پر آپ ہی کا شو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پروڈیوسرز کو جب ایسی آئیڈیل میزبان مل جاتی ہے تو یہاں سے شروع ہوتی ہے ریٹنگ کی دوڑ ۔ اور پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کیا پیش کر رہا ہے ، کیسا بول رہا ہے اور موضاعات کتنے جاندار ہیں بس دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ باقی چینلز کے مقابلے میں ان کا مارننگ شو ناظرین میں کتنی مقبولیت حاصل کر رہا ہے ۔
اسلامی ثقافت، قومی نظریات اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کرنے جیسے اہم عوامل سے محروم یہ مارننگ شوز نجانے عوام کو کہاں لے جانا چاہ رہے ہیں ۔ بحثیت قوم یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اور سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ایسے پروگرام ہمیں مثبت سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کا حامل کر رہے ہیں؟ کیا ہماری خواتین کو یہ مارننگ شو بہترین مائیں، بہنیں اور بیویاں بننے میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں؟