تحریر : ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی سورة العادیات کا آسان ترجمہ: قسم ہے اُن گھوڑوں کی جو ہانپ ہانپ کر دوڑتے ہیں۔ پھر جو (اپنی ٹاپوں سے) چنگاریاں اُڑاتے ہیں۔ پھر صبح کے وقت یلغار کرتے ہیں۔ پھر اُس موقع پر غبار اُڑاتے ہیں۔ پھر اُسی وقت کسی جمگھٹے کے بیچوں بیچ جا گھستے ہیں۔ کہ انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ اور وہ خود اس بات کا گواہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مال کی محبت میں بہت پکا ہے یعنی وہ دولت کا رسیا ہے۔ بھلا کیا وہ وقت اُسے معلوم نہیں ہے جب قبروں میں جو کچھ ہے، اُسے باہر بکھیر دیا جائے گا۔ اور سینوں میں جو کچھ ہے، اُسے ظاہر کردیا جائے گا۔ یقینا اُن کا پروردگار اُس دن اُن (کی جو حالت ہوگی اُس) سے پوری طرح باخبر ہے۔
سب سے قبل اس سورت کا خلاصۂ تفسیر پیش ہے: اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں انسان کو بتایا ہے کہ وہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اور عمومی طور حیوانات، نباتات اور جمادات سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان ہی کے تصرف میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین میں اپنا خلیفہ متعین فرمایا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورة البقرہ آیت ٣٠ میں ذکر فرمایا ہے۔ اس موقع پر خصوصاً جنگی گھوڑوں کی انسانوں کی حفاظت کے لیے قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے آقا یعنی انسان کی اطاعت و خدمت کے لیے اپنی جان کی بازی لگاکر ہر وقت اپنے دنیاوی مالک کی حفاظت کے لیے تیار رہتا ہے۔ پانچ آیات میں قسم کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی ناشکری کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے گھوڑوں اور بے شمار دیگر اشیاء جس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے مہیا کیا ہے، سے سبق حاصل کرکے اپنے حقیقی مالک کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتا؟ انسانوں کا بھی تو خالق، مالک اور رازق وہی ہے۔ گھوڑوں سے عبرت حاصل کرکے انسان اپنے حقیقی مالک کی فرمانبرداری کے لیے اُس کے احکام کے مطابق دنیاوی زندگی کیوں نہیں گزارتا؟ اپنی مرضی سے دنیا کے لیل ونہار کیوں گزارنا چاہتا ہے؟
آٹھویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے بخیل ہونے پر اُس کی ملامت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے انسان کو دولت، منصب اور اولاد دی ہے اور یہ ساری کائنات بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آئی ہے، لیکن مال حاصل کرنے کے بعد انسان مال کے متعلق اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے حقوق کما حقہ ادا نہیں کرتا بلکہ گن گن کر چھپا چھپا کر رکھتا ہے اور لوگوں پر ظلم بھی کرتا ہے۔ حالانکہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ مال ودولت اور ساری جائداد یہیں رہ جائے گی اور خالی ہاتھ دنیا کو چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ قدرت کا کیسا عجیب وغریب نظام ہے کہ ہر سو سال کے بعد دنیا کے ظاہری مالک زمین بوس ہو جاتے ہیں اور دوسرے لوگ زمین کے مختلف حصوں پر قبضہ کرلیتے ہیں حالانکہ انہیں بھی ایک دن خالی ہاتھ اس دنیا سے چلے جانا ہے۔ چند دن وارثین مرنے والے اپنے قریبی رشتہ داروں کو یاد رکھتے ہیں، پھر وہ بھی اپنی دنیاوی زندگی میں ایسے مست ہوجاتے ہیںکہ کبھی کبھار صرف اُن کا تذکرہ کیا کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی بھی لمحہ موت کا فرشتہ اُن کی بھی روح قبض کرنے کے لیے آسکتا ہے، یعنی انہیں بھی اس دنیا سے اپنے باپ دادا کی طرح خالی ہاتھ جاناہے۔ آخری تین آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ انسان کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ ساری صلاحیتیں صرف اور صرف اس دنیاوی زندگی کو سنوارنے میں لگادے بلکہ اصل کامیابی وکامرانی یہ ہے کہ انسان آخرت کی زندگی کو سامنے رکھ کر دنیاوی فانی وقتی زندگی گزارے۔ اس بات کا کامل یقین رکھ کر دنیاوی زندگی کے قیمتی اوقات گزارے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو حشر کے میدان میں جمع کیا جائے گااور ہر شخص کا نامۂ اعمال پیش کیا جائے گا۔ عقلمند شخص وہ ہے جو مرنے سے قبل مرنے کے بعد والی ہمیشہ کی زندگی کے لیے تیاری کرے۔
اللہ تعالیٰ کا مختلف چیزوں کی قسم کھانا: یہ مسئلہ بیان کیا جاچکا ہے کہ وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنی مخلوقات میں سے مختلف چیزوں کی قسم کھاکر خاص واقعات اور احکام بیان کرتا ہے تاکہ انسان قسم کے جواب میں آنے والے قصہ یا حکم کو بغور سماعت کرے اور واقعہ سے عبرت حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم کو خصوصی توجہ واہتمام کے ساتھ بجالائے۔ البتہ کسی انسان کے لیے کسی مخلوق کی قسم کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم کے مفسر اوّل، جن کے قول وعمل کے بغیر اللہ کے کلام کو سمجھنا بھی ممکن نہیں ہے، ( یعنی حضور اکرمۖ) نے ارشاد فرمایا: جوشخص قسم کھانا ہی چاہے تواسے چاہئے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے۔ (بخاری ومسلم) نیز نبی اکرمۖ نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائی ، گویا اس نے کفر وشرک کیا۔ (ترمذی، ابوداود)۔ لہذا ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہئے ، اگر ہمیں قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اللہ تعالیٰ کی قسم کھائیں۔اگر کسی شخص نے جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھالی اور پھر اُس قسم کو پورا نہ کرسکا تو اسے قسم کا کفارہ دینا ہوگا۔ یعنی دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا، یا دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دینا، یا ایک غلام آزاد کرانا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروںمیں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو قسم توڑنے والے کو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔
الفاظ کی تحقیق: ”و” قسم کے لیے ہے۔ ”عَادِےَات” کے معنی دوڑنے والے کے ہیں، لیکن یہاں یہ جنگی گھوڑے کی صفت کے طور پر آیا ہے کیونکہ اس کے بعد آنے والی چار صفات گھوڑے کے سوا کسی اور چیز کی نہیں ہوتیں۔ ” ضَبْح” وہ خاص آواز ہے جو گھوڑے کے دوڑنے کے وقت اس کے نتھنوں سے نکلتی ہے ، جس کا ترجمہ ہانپنا کیا گیا ہے۔ ”مُوْرِےَات” ایراء سے مشتق ہے جس کے معنی آگ نکالنے کے ہیں جیسے چقماق پتھر رگڑکر یا دیاسلائی کو رگڑ کر نکالی جاتی ہے۔ ”قَدْح”کے معنی ٹھوکر لگانے اور ایک چیز کو دوسری چیز سے ٹکرانے کے ہیں۔ پتھریلی زمین پر جب گھوڑا تیزی سے دوڑے خصوصاً جبکہ اس کے پاؤں میں آہنی نعل بھی ہوں تو ٹکراؤ سے آگ کی چنگاریاں نکلتی ہیں۔ ”مُغِےْرَات” اغارہ سے مشتق ہے جس کے معنی حملہ کرنے کے ہیں۔ صبح کے وقت کی تخصیص عادت کے طور پر ہے کیونکہ عرب لوگ اظہار شجاعت کے لیے رات کے اندھیرے میں چھاپا مارنا معیوب سمجھتے تھے، اس لیے وہ حملہ صبح ہونے کے بعد کیا کرتے تھے۔ ”اَثَرْنَ” اثار سے مشتق ہے، جس کے معنی اڑانے اور ابھارنے کے ہیں، اور ”نَقْع” کے معنی گردوغبار کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یہ گھوڑے میدان میں اس تیزی سے دوڑتے ہیں کہ اُن کے سُموں سے غبار اڑکر چھا جاتی ہے۔ ”فَوَسَطْنَ بِہِ جَمْعًا” یہ دشمن کی صفوں میں بے خوف وخطر گھس جاتے ہیں۔ انہیں اپنی جانوں سے زیادہ اپنے مالکوں کا مقصد عزیز ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ ہر خطرے سے بے خوف ہوکر اقدام کرتے ہیں اور یہی ان کا مقصد ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے حال پر رحم فرماکر گھوڑوں کے مختلف اوصاف کی قسم کھاکر ارشاد فرماتا ہے تاکہ گھوڑوں کی طرح بندہ اللہ کا شکر گزار بندہ بن کر دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کرنے والا بن جائے۔
”اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہِ لَکَنُوْد”: یہ وہ اصل بات ہے جس پر شہادت کے لیے گھوڑوں کے چند اوصاف کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ یعنی چند قسمیں کھاکر خالق کائنات نے فرمایا: انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو کنود کہا ہے، جس کے معنی نا شکرے کے ہیں۔ حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : وہ شخص جو مصائب کو یاد رکھے اور نعمتوں کو بھول جائے اُس کو کنود کہا جاتا ہے۔ غرضیکہ جو انسان اپنے گھوڑوں کی یہ ساری جاں نثاریاں دیکھتا ہے اور ان کی قربانیوں سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اسے یہ سوچنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ بھی اپنے رب کا غلام ہے، اس کو بھی کسی نے پیدا کیا ہے، کیونکہ وہ اور پوری کائنات خود بخود کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ لہذا اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی انہی گھوڑوں کی طرح اپنے حقیقی مولاوآقا کی اطاعت کے لیے ہر وقت تیار رہے۔ معلوم ہوا کہ انسان ناشکرا ہے کیونکہ گھوڑا جانور ہوکر بھی اپنے مالک کا حق پہچانتا ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات ہوکر بھی اپنے حقیقی مولا کا حق نہیں سمجھتا۔ اس جگہ پر گھوڑوں کا ذکر صرف مثال کے طور پر کیا گیا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار مخلوقات انسان کے لیے مسخر کردی ہیں۔ انسان کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سینکڑوں انعامات سے فائدہ نہ اٹھارہا ہو حتی کہ انسان جو سانس لیتا ہے وہ بھی اللہ کے فضل وکرم اور اس کی مخلوقات سے استفادہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
”وَاِنَّہ عَلَی ذَلِکَ لَشَہِےْد” اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ انسان کے ناشکرے ہونے پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، اس کا طرز عمل خود گواہی دیتا ہے کہ وہ ناشکرا ہے۔ ”وَاِنَّہ لِحُبِّ الْخَےْرِ لَشَدِےْد” انسان کے ناشکرے ہونے کے لیے اس کے کردار سے ہی ایک دلیل اللہ تعالیٰ پیش فرمارہا ہے کہ وہ مال کی بے جا محبت کا شکار ہے۔ انسان کو اپنے گھوڑوں کو دیکھنا چاہئے کہ وہ جان کی بازی لگاکر جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ سب مالک کا ہوجاتا ہے۔ اپنے لیے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے۔ مالک جو کچھ اُن کے آگے ڈال دیتا ہے اس پر قناعت کرلیتے ہیں۔ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جو مال بھی اللہ کے فضل وکرم سے اسے حاصل ہوتا ہے اُس کو صرف اور صرف اپنا سمجھ کر اپنی خواہشات پر عمل کرنا چاہتا ہے۔ اور مال کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرنا درکنار، دوسرے انسانوں کے حقوق بھی کھا جاتاہے۔
”اَفَلَا ےَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِیْ الْقُبُوْرِ وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْر” ان آیات سے غافل انسان کو اللہ تعالیٰ متنبہ کررہا ہے کہ کیا وہ اُس دن کو بھول گیا ہے جب مردے قبروں سے زندہ کرکے اٹھالیے جائیں گے اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں سب کھل کر سامنے آجائیں گی۔ حالانکہ حضرت انسان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے احوال سے بخوبی واقف ہے۔ اس لیے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے باز آئے اور مال کی محبت میں ایسا مغلوب نہ ہوجائے کہ اچھے برے کی تمیز بھی نہ کرے کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص سے سوال کیا جائے گا کہ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی وسائل حلال تھے یا حرام، نیز کہاں خرچ کیا؟ یعنی اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق ادا کیے یا نہیں۔ ”اِنَّ رَبَّہُمْ بِہِمْ ےَوْمَئِذٍ لَّخَبِےْر” کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کردیا کہ ہر انسان کی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو محفوظ کیا جارہا ہے۔آج کے کمپیوٹر کے زمانہ میں اس کو سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے کیونکہ جب انسان کے تیار کردہ پروگراموں کے ذریعہ لوگوں کی ساری نقل وحرکت محفوظ ہوجاتی ہیں تو پھر خالق کائنات کے نظام میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟
Mohammad Najeeb Qasmi
تحریر : ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)