تحریر : روہیل اکبر صبح جب آنکھ کھلتی ہے تواسی وقت سے ایک نہ ختم ہونے والی ہولناک خبروں کا ایسا سلسلہ شروع ہوچکا ہوتا ہے جو رات گئے تک جاری رہتا ہے سب سے پہلی خبر جو دیکھنے کو ملی وہ کوئٹہ میں بم دھماکے کی تھی جہاں ایک بار پھر دھماکہ ہوگیا پولیس والوں سمیت عام شہری بھی اللہ کو پیارے ہوگئے دوسری طرف عمران خان کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد پولیس نے پارٹی تشکیل دیدی جو اسے گرفتار کرکے الیکشن کمیشن کے روبرو پیش کریگی جبکہ مقتول ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمہ میں ملزم مفتی عبدالقوی ضمانت خارج ہونے سے احاطہ عدالت سے فرار ہوگئے اور پھر بعد میں گرفتار کرلیے گئے ،سابق نااہل وزیراعظم کے گھر کے قریب رائیونڈ تحصیل ہیڈ کوارٹرہسپتال میں ڈاکٹرکے نہ ہونے کے باعث خاتون نے سڑک پر بچی کوجنم دے دیابھٹہ مزدور محمد عامر زچگی کے لیے صبح ساڑھے 7 بجے اپنی اہلیہ کو ایمرجنسی کی حالت میں رائیونڈ تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال لایااس وقت ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر موجود ہی نہیں تھا جس کے باعث خاتون نے ہسپتال کے باہرہی سڑک پر بچی کوجنم دے دیاجبکہ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پوری کردی انہوں نے فرمایا کہ ہم غربت کے خاتمے کے لئے انقلابی پروگرام لائیں گے اورغربت کے خاتمے تک روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ جاری رہے گاجی یہ وہی نعرہ ہے جس کے جھانسہ میں آکر عوام نے بار بار پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے جسکی بدولت انہوں نے سرے محل ،دبئی محل سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں جائیدادیں بنا لیں جبکہ ایک کمرے کے گھر کی خواہش لیے پاکستان کی عوام آج بھی روٹی ،کپڑے اور مکان کے چکر میں کبھی ان کو ایوانوں میں پہنچا رہی ہے تو کبھی منی لانڈرنگ میں مصروف خاندان کو تیسری بار وزیراعظم منتخب کروارہی ہے مگر خود تھر کے صحراؤں میں بھوک سے نڈھال ہے ہسپتال کے باہر سڑکوں پر بچے جنے جا رہے ہیں۔
اعلی تعلیم یافتہ ڈگریاں ہاتھوں میں تھامیں درجہ چہارم کی ملازمتیں ڈھونڈنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف میٹرک پاس اسمبلیوں میں بیٹھ کر ماسٹر ڈگری ہولڈر افراد کی قسمت کا فیصلہ صادر فرما رہے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب لاہور میں میٹرو بس کا افتتاح کیا جارہا تھا تو خادم اعلی بھی میڈیا ٹیم کے ہمراہ ایک بس میں سوار ہوگئے وہاں پر موجود ایک مسافر سے جب حامد میر نے پوچھا کہ یہ ساتھ بیٹھے شخص کو جانتے ہیں تو اس نے کہا کہ نہیں جب اسے بتایا گیا کہ یہ وزیراعلی پنجاب میں شہباز شریف ہیں تو اس بزرگ مسافر نے کہا کہ میں نہیں مانتا کیونکہ یہاں نہ انصاف ہے نہ حکومت نام کی کوئی چیز جس پر خادم اعلی نے تسلیم کیا کہ واقعی پنجاب میں انصاف نہیں ہورہا اب پاکستان میں اگلی حکومت کی پشین گوئی کرنے والے آصف علی زرداری کے سندھ کا حال یہ ہے کہ وہاں پر مریضوں کو درخت کے نیچے زمین پر لٹا کرعلاج کیا جاتا ہے تھر میں بچے بھوک اور علاج نہ ہونے سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
پنجاب اور سندھ میں 6,6باریاں لینے والے اداروں کو کیوں نہ ٹھیک کر سکے مغرب میں جمہوریت آگے بڑھی اور یہاں بادشاہت، اوپر جانے والے معاشرے میں انصاف اور میرٹ کا نظام اچھا ہوتا ہے انہی خامیوں اور ناکامیوں کے سبب آج پاکستان میں ایک دن میں 12ارب کی کرپشن ہوتی ہے اسی لوٹ مار کے باعث پاکستان میں بیک وقت تین تعلمی نظام رائج ہیں ایک وہ جہاں ایلیٹ کلاس لوگوں کے بچے پڑھ رہے ہیں جو خود بھی اعلی عہدوں پر فائز رہے اور پھر اپنے بچوں کو اسی مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں دوسرا مڈل کلاس طبقہ ہے جو کہیں نہ کہیں سے اپنا انتظام کرکے اپنا اور بچوں کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کررہا ہے اور تیسرا طبقہ سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہا ہے اور آخر میں سفارش کا سہارا لیکر کسی نہ کسی ادارے میں کوئی چھوٹی سی نوکری کروارہا ہوتا ہے یہاں میرٹ صرف عام آدمی کے لیے ہے کوئی دور تھا کہ پاکستان ایشیاء میں سب سے زیادہ ترقی کر رہا تھامگر ہمارے حکمرانوں کی ناکام اور لوٹ مار کی پالیسیوں کی بدولت آج پی آئی اے جیسا منافع بخش ادارہ 330ارب روپے کا نقصان کر رہاہے یہ صرف ایک ادارے کا حال نہیں بلکہ اس وقت پاکستان اسٹیل سمیت تمام قومی ادارے نقصان میں ہیں اور ان اداروں کو چلانے والے فائدے میں جارہے ہیں کیونکہ جب گورننس ٹھیک نہ ہو تو ادارے تباہ ہو جاتے ہیں شریف انسان سر چھپانے کے لیے جگہ ڈھونڈتا ہے اوریہاں ایک ملزم چالیس گاڑیوں کے پروٹوکول میں احتساب عدالت پیش ہوتا ہے یہ صرف جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے حالانکہ پاکستان میں کبھی حقیقی جمہوریت نہیں آئی یہاں اداروں کو کرپٹ افراد کے زریعے ذاتی جاگیر بنا لیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب کوئی غریب انسان کومعمولی جرم میں پھنس جائے تو پولیس اسے اٹھا کر ایسے گاڑی میں پھینکتی ہے جیسے وہ کوئی ردی کا تھیلا ہو جبکہ صاحبان اقتدار کو ہاتھ لگاتے ہوئے پولیس کے ہاتھ کانپتے ہیں عمران خان ،ڈاکٹر طاہرالقادری وارنٹ گرفتاریوں کے باوجود آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں مفتی عبدالقوی صاحب ضمانت کینسل ہونے پر عدالت سے فرار ہوجاتے ہیں کیا قانون صرف غریب اور مجبور لوگوں کے لیے ہی رہ گیا ہے یہی غریب اصل میں پاکستان ہیں جن کے ووٹ کی طاقت سے آپ سب اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور وہ سب غریب اپنی دو وقت کی روٹی کے چکر میں آپ لوگوں کے چکر میں آجاتے ہیں ایک پارٹی نے برسوں سے روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا رکھا ہے تو دوسری نے انصاف ،روزگار اور نیا پاکستان کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے جبکہ پانامہ کے ہنگاموں میں گم ہونے والوں نے خوددار،خوشحال اورخودمختار پاکستان کی بجائے اپنے آپ کو ہی خوشحال بنا لیا رہی بات عام لوگوں کی وہ پہاڑوں میں مریں ،سڑکوں پر بچے پیدا کریں یا پھر گندگی کے ڈھیروں میں زندگی بسر کرجائیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا فرق پڑتا ہے تو انہیں جومرنے والے کے بعدزندہ رہتے ہیں اور پھر مزید زندہ رہنے کے لیے حکمرانوں کے رنگین وعدوں کے فریب اور دھوکے میں آجاتے ہیں نہ جانے کب ہمیں شعور آئے گا اور کب ہم ترقی کی جانب اپنا حقیقی سفر طے کرسکیں گے ورنہ سیاستدانوں کا تو روز کا معمول ہے کہ انہوں نے آج کونسی گولی عوام کو دینی ہے۔