تحریر : سید توقیر زیدی 18 اکتوبر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب شر کی قوتوں نے دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے لیے ایک گھنائونی سازش کی تھی۔ اللہ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو تو اپنی امان میں رکھا مگر سینکڑوں سیاسی کارکن اس ظلم کا نشانہ بن گئے۔ یہ قربانی نہ تاریخ کی پہلی قربانی تھی اور نہ یہ ٹکرائو پہلا تھا۔ روز ازل ہی سے خیراور شر کی قوتیں بر سر پیکار ہیں۔ 18اکتوبر 2007 کو شر کی جن قوتوں نے انسانی حقوق ، جمہوریت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے پاکستان آنے والی محترمہ بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کیلئے سینکڑوں لوگ مار دیئے تھے آج وہ منہ چھپائے ہوئے ہیں۔
بلاول بھٹو کے مطابق پاکستان دشمن قوتیں خبرداررہیں کہ عام آدمی کو حقوق دلانے کی جو جنگ اس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی تھی اور جس کیلئے اس کی ماں نے بھی اپنی جان قربان کردی وہ جنگ جاری ہے ، دہشت گرد اور رجعت پسند ہزار ظلم کرلیں ان کو جمہوریت کے ذریعے شکست دی جائے گی۔
اکتوبر کے مہینے سے اہل پاکستان کی افسوسناک اور خونیں یادیں وابستہ ہیں۔ 5اکتوبر کے زلزلے کے زخم ہوں یا قائد ملت لیاقت علی خان کی 16اکتوبر کو شہادت کا غم ، اپنی اپنی جگہ دلخراش ہیں مگر 18اکتوبر 2007کو اہل وطن نے جو قیامت دیکھی ہے اس کی یاد ایک مستقل درد بن کر دلوں میں جاگزیں ہے۔ یہ وہ المناک تاریخ ہے جب محترمہ بینظیر بھٹو ایک آمر سے وطن کو آزاد کرانے کیلئے واپس آ رہی تھیں۔ ان کی آمد پر خوشیوں سے سرشار لاکھوں جیالے کراچی میں موجود تھے۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کے استقبال کیلئے اتنے بڑے ہجوم کا یہ ایک ریکارڈ تھا۔ اس سے پہلے کا ریکارڈ بھی محترمہ کا ہی تھا جو 1986میں ان کی لاہور آمد پر قائم ہو ا تھا۔ یہ عوام کی طرف سے پذیرائی اور محبت کی ایک عظیم مثال تھی۔ ایک طرف جانثاروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا تو دوسری طرف وطن اور عوام دشمن قوتیں بھی اپنی پوری خباثت کے ساتھ موجود تھیں۔ محترمہ کو پاکستان واپس آنے سے کئی بار منع کیا گیا مگرانہوں نے تمام دھمکیوں اور خطرات کو پس پشت ڈال کر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تھا اور ان کو راستے سے ہٹانے کیلئے رجعت پسند قوتوں نے بھی پورا پورا بندوبست کر رکھا تھا۔ یہ ایک منظم سازش تھی۔ مقامی شہری انتظامیہ نے مبینہ طور پر استقبالی جلوس کے راستے میں سٹریٹ لائٹس بند کرکے دہشت گردوں کو موقع دیا اور پھر ایک منٹ کے وقفے سے دو دھماکوں نے کراچی کو لہولہان کردیا۔ 180جانثار قربان ہوگئے جبکہ سینکڑوں معذور اور زخمی ہوگئے۔ یہ سانحہ ملکی تاریخ کاا نتہائی اندوہناک سانحہ تھا اور سیاسی قربانی کی ایک لازوال مثال تھی۔
ان دھماکوں سے چند لمحے پہلے ہی محترمہ بینظیر بھٹو اپنے ٹرک کی چھت سے اتر کر نیچے آگئی تھیں جس وجہ سے وہ خود تو بچ گئیں مگر ایک طرف تو ان کا دل اپنے پیارے کارکنوں کی موت پر دکھ رہا تھا تو دوسری طرف وہ ایک نئے عزم کے ساتھ جمہوریت کی جنگ لڑنے کو تیار ہوگئی تھیں اور پھر ظالموں نے کچھ ہی دنوں بعد لیاقت باغ راولپنڈی میں ان کو شہید کردیا تھا مگر جس مقصد اور نظریے کیلئے محترمہ نے جان دی اس کی حفاظت اور جمہوریت کو پوری طرح بحال کرانے کیلئے جنگ ختم نہیں ہوئی۔ ہر سال 18اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی سمیت جمہوریت پسند قوتیں ایک قومی سانحہ کے طور پر مناتی ہیں۔ مرنے والوں کی مغفرت کیلئے دعا کے ساتھ ان کے لواحقین کو یاد کیا جاتا ہے ،زخمی اور معذور ہونے والوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا ہے۔پاکستان میں جمہوریت پر یقین رکھنے والے افراد اس دن دی جانے والی قربانی کو فراموش نہیں کر سکتے۔