تحریر : عابد رحمت پوری دنیامیں اس وقت مسلمان کس قدربے بس اورمجبوروبے کس ہیں ۔کیوں نہ آنسوئوں کے نوحے جاری ہوں ،مسلمان پوری دنیامیں کم وبیش ڈیڑھ ارب کی تعدادمیں ہیں اور57سے زائد ممالک پرمسلم حکمرانی ہے ،قدرتی وسائل میں مسلمان سب سے آگے ہیں مگرپھربھی یہودوہنودکے پنجہ استبدادمیں جکڑے ہوئے ہیں۔ رقص ابلیس کی فسوں کاری کے یہ دلخراش واقعات اور تلخ حقیقتیں کیسے بھول جائوں کہ فلسطینیوں پراسرائیل کے مظالم اوردرندگی کی انتہاء ہے،مقبوضہ کشمیرمیں بسنے والے مسلمان عرصہ درازسے سات لاکھ ہندوستانی فوج سے نبردآزماہیں اور ہزاروں قربانیوں کے باوجودبھی اپناحق خودارادیت منوانے سے عاجز ہیں۔
بوسنیا ہرزیگوینیامیں مسلمانوں کی نسل مٹائی گئی، چیچنیا میں انسانی حقوق کوپامال کیاگیا، افغانستان اورعراق میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کوموت کے حوالے کیاگیا،دنیا کے مختلف حصوں میں عیسائی، ہندو، بدھسٹ اوریہودی مسلمانوں پرظلم وستم کے پہاڑتوڑرہے ہیں ۔ہم کچھ کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کادرکھٹکھٹاتے ہیں ، مگروہ دروازے کی چٹخنی چڑھائے ، کانوں میں روئی ٹھونسے ، آنکھوںپہ تعصب کی پٹی باندھے گونگابہرہ ہونے کاڈرامارچاتی ہے ۔ مسلمان اقوام متحدہ کوظالموں پردبائوڈالنے کی دہائیاں دیتے ہیں مگران کی آہ وفغاں عالمی طاقتوں کے سامنے دب جاتی ہے ۔اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اوربااثرممالک اس وقت ہڑبڑاکراٹھ بیٹھتے ہیں جب خونی تشدد، خانہ جنگی، انسانی حقوق کی پامالی یاوحشیانہ سلوک جیسے واقعات میں ان کے مفادشامل ہوں یامظلوم مسلمانوں کے علاوہ کوئی اورقوم ہو۔ایسٹ تیمور، جنوبی سوڈان اورایسے ہی دیگرمقامات پرپیش آنے والے واقعات اقوام متحدہ کی اس منافقت کی غمازی کرتے ہیں ۔
ہم اس وقت تک متحرک رہتے ہیں جب تک میڈیابشمول سوشل اورپرنٹ میڈیاپرمسلمانوں پرڈھائے جانے والے ظلم وستم کی ویڈیوزاوران کی مسخ شدہ ، کٹی پھٹی لاشوں کی تصاویروائرل(جاری) ہوتی رہتی ہیں ۔جب میڈیا یہ دل سوزمناظردکھانابندکردیتاہے توہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں ، اب امن قائم ہوچکاہے، ظالم مسلمانوں کی لاشیںچھوڑکرجاچکے ہیں ، وحشی درندوں نے مسلمان عورتوں کے جسموں کونوچنابندکردیاہے، مسلمانوں کوان کے حقوق مل چکے ہیں ، انہیں انسان تسلیم کرلیاگیاہے ، ایسی صورت میں ہم اپنابوریابسترلپیٹے ، دھرناچھوڑکر، احتجاج سے توبہ تائب ہوکراپنے پُرسکون گھروں کولوٹ آتے ہیں ، مسلمانوں کے حق میں لگائے گئے نعروں سے گلے میںپڑی خراشیں ،دوا’داروسے دورکرتے ہیں ، اس رات ہم پرسکون نیندلے کرجب اٹھتے ہیں تویہ سوچ کراپنی خرمستیوں میں دوبارہ کھوجاتے ہیں کہ ہم نے اپنے مسلمان ہونے کاحق اداکردیا،ہم یہ سوچ کرکہ مسلمانوں کے حق میں اپنی آوازکے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ بھی دعاکے لیے بلندکرکے خودکومسلمانوں کے محافظ ہونے کاثبوت فراہم کرچکے ہیں،لہٰذاعالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کوبھلادیناہمارااتناتوحق بنتاہی ہے۔ ہم اپنی بے حسی پرماتم کرنے کی بجائے غفلت کالبادہ اوڑھ کر، اقتدارکے نشے میں چور، طائو س ورباب کی جھنکاروں میں دھت پڑھے ہوتے ہیں ۔
ہم یہ بھول چکے ہیں کہ مسلمانوں کے گھرکھنڈرات بن چکے ہیں ،مسلمانوں کی گردنیں کاٹی جارہی ہیں ، ہماری عفت مآب مائوں ،بہنوں کی عزتیں تارتارکی جارہی ہیں ، گھروں کوجلاکرراکھ کاڈھیربنایاجارہاہے ۔ہم یہ نظراندازکرچکے ہیں کہ میانمارمیں مسلمانوں کے اعضاء دوردورتک بکھرے پڑے ہیں ، ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے ، لاشوں کوسڑکوں پرگھسیٹاجارہاہے ۔ہم اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں کہ میانمارکی سیکیورٹی فورسزمردوں کوگولیاں مارنے، بچوں کوذبح کرنے اور بنت حواکی عزتیں لوٹنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑرہیں ۔ہم بھول رہے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں بھی بدھوں کی اتنہاپسندتنظیم تھاکن نے ایک لاکھ مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتاردیا ،صرف چندہفتوں کے اندراندرمیانمارسے چارلاکھ مسلمان ہجرت کرنے پرمجبورہوئے۔ہم کیوں اس حقیقت کااعتراف نہیں کرتے کہ جس میانمار کی آبادی چالیس لاکھ سے زائدہے اور80فیصدمسلمان ہیں مگرپھربھی وہ اپنے ہی وطن کی شہریت سے محروم ہیں ۔کیایہ واقعہ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی نہیں کہ صرف تین دن میں تین ہزارروہنگیامسلمانوں کوشہیداور2600گھروں کوآگ لگادی گئی ۔ہماری یادداشت اس قدرکمزورہوچکی ہے کہ ہمیں یہ بھی یادنہیں کہ ہیومن رائٹس واچ نے روہنگیائی مسلمانوں کودنیاکی مظلوم ترین قوم قراردیاہے ۔ہمیں تاریخوں کایہ تسلسل جھنجھوڑجھنجھوڑکرکچھ یاددلانے کی کوشش کرتاہے کہ 1978ئ، 1992-1991ئ،2012ئ، 2015ء اور2017ء میں مسلمانوں کوکس بے دردی سے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ظلم وجبرروارکھا گیااورخون کی ندیاں بہائی گئیں ۔ہمیں ان تڑپتے ہوئے بچوں کی چیخیں تک یادنہیں جن کی گردنیں کاٹ کران کی مائوں کے سامنے تڑپنے کے لئے چھوڑدیاگیا۔چنگیزاورہلاکوخاں سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔
درختوں سے مسلمان عورتوں کی برہنہ لاشوں کالٹکایاجانا، مساجدمیں عورتوں کی عصمت دری کے بعدانہیں قتل کردیاجانا،سینکڑوں حفاظ کاجلایاجانا، 13 مسلمان بستیوں کابربادہونا،4862مکانات کامنہدم اورزمین بوس ہونا، 600مساجدکامسمارہونا اورخونِ مسلم کاارزاں ہونا، کچھ بھی توہمیں یادنہیں ، ہم سب کچھ بھول گئے ۔یہ سب کچھ ہنوزجاری ہے مگرہم چپ سادھے ، اسے قصہ پارینہ سمجھ کربھول گئے۔
ویسے بھی دنیاکایہ دستورہے کہ وہ جدیدکوپسندکرتی ہے اورقدیم کوفرسودہ سمجھ کربھول جاتی ہے ۔اب ہم کسی نئے مسئلے، المیے، حوادث اورسانحے کے انتظارمیں ہیں ، تاکہ ہم بے کارنہ بیٹھیں ، پھرسے واویلا، آہوکار، احتجاج اوردہائیوں کاوردکرکے دنیاکواپنے مظلوم ہونے کاعندیہ دیں ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ طوفان جب اٹھتے ہیں ، زلزلے جب آتے ہیں ، منہ زورآندھیاں جب چلتی ہیں ، سیلاب جب ابھرتے ہیں اورآگ جب بھڑکتی ہے تواس کی زد میں صرف ایک گھریافردنہیں آتابلکہ بسااوقات پوری قوم ان کی نذرہوجایاکرتی ہے۔