واشنگٹن (جیوڈیسک) جاپان میں اتوار کو ہونے والے انتخابات میں حکمران لبرل ڈیوکریٹک پارٹی نے جاپانی پارلیمان کے ایوان زیریں میں دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کر لی۔ لبرل ڈیموکرٹک پارٹی نے اپنی چھوٹی اتحادی جماعت کومیٹو کے ساتھ ملکر 465 ارکان پر مشتمل ایوان میں 312 نشستیں حاصل کر لی ہیں۔ ان انتخابات میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ 54 فیصد رہا۔ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو ایون بالا میں پہلے ہی برتری حاصل ہے۔
انتخابات میں زبردست کامیابی کے بعد وزیر اعظم شنزو آبے نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ کے بعد تشکیل پانے والے آئین میں قومی مفاہمت کے ساتھ مثبت تبدیلیوں کی کوشش کریں گے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی تبدیلیوں کے بارے میں جاپان میں رائے عامہ منقسم ہے کہ وزیر اعظم کو حمایت حاصل کرنے کیلئے کافی محنت کرنا پڑے گی۔
انتخابات سے قبل وزیر آعظم آبے نے پارلیمان تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ یوں وہ 2021 تک جاپان کے وزیر اعظم برقرار رہیں گے۔ اگر وہ پارلیمان تحلیل نہ کرتے تو اُن کی مدت دسمبر 2018 تک برقرار رہتی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم آبے کا قبل از وقت انتخابات منعقد کرانے کا اقدام دراصل اپنے عرصہ اقتدار کو بڑھانا تھا۔ یوں ان انتخابات میں کامیابی کے بعد آبے جاپان کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے وزیر اعظم بن جائیں گے۔
2012 میں وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والے شنزو آبے کو ان انتخابات میں بھرپور کامیابی کے بعد اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا موقع مل جائے گا۔ ان میں شمالی کوریا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات، اُن کی مالیاتی پالیسی اور جوہری توانائی کے فروغ کی پالیسیاں شامل ہیں۔
وزیراعظم آبے نے انتخابات سے قبل شمالی کوریا کی طرف سے خطرے کو ’قومی بحران‘ قرار دیا تھا اور اس سے نمٹنے کیلئے امریکی صدر ٹرمپ کی شمالی کوریا کے بارے میں سخت پالیسی کی حمایت کی تھی۔ موجودہ انتخابات میں کامیابی کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ فون پر بات چیت کے دوران اُنہوں نے شمالی کوریا پر دباؤ مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ صدر ٹرمپ اگلے ماہ جاپان کا دورہ کریں گے اور توقع ہے کہ اس دورے کے دوران وہ اور جاپانی وزیر اعظم گولف بھی کھیلیں گے۔