ہر توقع ہی اب اُٹھا دی ہے اُس نے جو بھی ہمیں سزا دی ہے اُس کے بدلے میں بس دعا دی ہے ہم نے دل کے نصابِ ہِجرت میں تیری یادوں کو ہی جگہ دی ہے ایک کشتی تھی آرزوئوں کی! غم کے دریا میں جو بہا دی ہے جو بھی دولت تھی نیک نامی کی سب تیرے عشق میں لُٹا دی ہے نسلِ انساں کے قِصہء غم نے اپنی بے چارگی بھلا دی ہے ہم نے ورثے میں مفلسی پا کر کیا امیری کی خُو نِبھا دی ہے آخری بار اس سے مِل کے زریں ہر توقع ہی اب اُٹھا دی ہے