تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی اللہ کا گھر بیت اللہ آج بھی ہمیشہ کی طرح آباد تھا ‘حرمِ کعبہ پر لمحہ ہر پل یو نہی آباد و شاد رہتا ہے ‘عشق و محبت میں ڈوبے دیوانوں کا قافلہ بیت اللہ کے گر د دن و رات ‘دھو پ چھا ئوں ‘سرد گرم کی پروا کئے بغیر ہر وقت مسلسل حر کت کر تا نظر آتا ہے ‘حج کا مو سم دنیا جہاں سے آئے دیوانوں سے حرم کعبہ بھر چکا تھا میں آج کا سارا دن حرم کعبہ میں گزارنے آیا تھا ‘دنیا جہاں ‘دوستوں ‘رشتہ داروںسے کٹ کر صرف حرم کعبہ اور میں اور کچھ بھی نہیں ‘میںرشک بھری نظروں سے حرم کعبہ کے درو دیوار کو دیکھ رہا تھا ‘یہاں کے سیکورٹی اہلکار صفائی کے کاموں پر ما مور لوگ جن کی قسمت میں کعبہ کا دیدار لکھ دیا گیا تھا میں طواف کر چکا تھا اب میں ریلیکس ہو کر ادھر اُدھر گھوم رہاتھا میں جب تھک جاتا تو آب زم زم پی کر کسی جگہ بیٹھ جا تا اور خا نہ کعبہ کو ٹکٹکی با ند ھ کر دیکھنا شروع کر دیتا ‘خانہ کعبہ کو آپ جب بھی دیکھتے ہیں تو اُس کے شکو ہ و جلال سے آپ کا ذہن حواس خمسہ کی قید سے آزاد ہو نے لگتا ہے آپ کے رگ و پے میں ہلچل سی مچ جا تی ہے ‘نشے و سرور کی ایمانی بو ندیں آپ کے با طن کو روشن اور سرشاری سے ہمکنا ر کر تی ہیں ‘میں اللہ کے گھر اور اُس کے بندوں کو دیکھ رہا تھا جو طواف کر رہے تھے بلند آواز میں تلبیہ پڑھ رہے تھے خدا کو پکا ر رہے تھے دنیا کے چپے چپے سے آئے ہو ئے دیوانوں کے جسموں پر کفن جیسی جو دو چادریں تھیں ‘ایک لبا س ‘ایک جنوں ‘ایک احساس ‘نہ کو ئی با دشاہ نہ کو ئی فقیر ‘نہ کو ئی خوبصورت نہ کو ئی عام شکل کا ‘سب کی رگوں میں خون کی جگہ عشق و مستی کا نشہ دوڑ رہا تھا یہ سارے لو گ دنیا جہاں کے آرام و آسائش چھو ڑ کر بیت اللہ کے دیدار کو آئے ہوئے تھے۔
صدیوں کے پیا سے ایک ایسے جزیرے میں آگئے تھے جہاں پر ایمان افروز محبتوں کرموں شفقتوں کی رم جھم جا ری تھی اور سالوں کے پیا سے اپنی روحانی جسمانی پیا س کو بجھا رہے تھے ہر ایک خو د کو دنیا کا خو ش نصیب ترین فرد سمجھ رہا تھا ‘اپنی قسمت پر نازاں تھا ایک ایک لمحے کو خوب انجوائے کر رہا تھا یہاں پر گزرا ایک ایک لمحہ صدیوں پر بھا ری تھا یہ لمحے صدیوں پر محیط صدیاں اِن لمحوں کے سامنے ذرے سے بھی کم حیثیت رکھتی تھیں اِن میں اکثر یت ایسے دیوانوں کی تھی جنہوں نے ساری عمر ریزہ ریزہ جو ڑ کر اِس گھر میں آنے کے خوا ب کی تعبیر دیکھی تھی بے شمار راتیں اِس خوا ب کی تعبیر کے انتظار میں کا ٹی تھیں ‘لاکھوں دعائوں کا ثمر پایا تھا ‘ہزاروں رکو ع و سجو د کے بعد آج یہ دن دیکھنا نصیب ہوا تھا اور آج وہ اِس نشے میں تھے کہ دنیا جہاں کی دولت اُن کے ساتھ آگئی ہے یہ وہ لو گ ہو تے ہیں جو زندگی میں پہلی اور آخری با ریہاں آتے ہیں اور یہ ایک ہی با ر میں ایسا نشہ سرور آسودگی اپنے دامن میں بھر کر لے جاتے ہیں جو اُن کی با قی زندگی کے لیے کافی ہو تی ہے با قی زندگی جب بھی یہ یہاں پر گزارے لمحوں کو یا د کر تے ہیں اِن کی آنکھوں میں چمک اور لہروں پر نو ر پھیل جاتا ہے یہ اُن لوگوں سے بلکل مختلف ہو تے ہیں جو یہاں بار بار آتے ہیں یا یو رپ امریکہ جا تے ہیں ‘ انتظا ر کی طویل راتوں کے کر ب کے بعد وصل یا رکی لذتیں یہی سادہ لو گ سمیٹتے ہیں جو یہاں صرف ایک بار آتے ہیں اِن میں سے زیا دہ دن رات حر م میں گزارتے ہیں یا حرم سے دور کسی سستے عام ہو ٹل میں زمینی بستروں پر ڈیرے ڈالتے ہیں ایک وقت کا کھا نا کھا تے ہیںسار ا وقت بیت اللہ کے دلان میں گزارتے ہیں یہ دن رات خدا کی کبریا ئی کے نغمے الا پتے ہیں کر ہ ارض کے چپے چپے سے آئے ہو ئے یہ لو گ اپنی جسموں کی پیا س یہا ں بجھا تے ہیں جب یہ اپنے گھروں سے چلتے ہیں تو دعائوں کی پو ٹلیاں اپنی بغلوں میں دبا کر چلتے ہیں پھر انہیں جب بھی مو قع ملتا ہے نما ز سے پہلے یا بعد میں بیت اللہ کے کسی گو شے میں آب زم زم پی کر اپنی دعا ئوں کی پو ٹلی کھو ل کر ایک ایک کر کے خدا کے حضور پیش کر تے جا تے ہیں انہوں نے اپنی ڈائریوں اور کاغذ کے ٹکڑوں پر اپنے دوستوں اہل خا نہ رشتہ داروں کی حاجتوں کے گوشوارے بنا رکھے ہو تے ہیں اور پھر یہاں خا لق کا ئنات کے حضور پیش کر دیتے ہیں۔
اِن دعائوں کو دیکھ کر مجھے بھی بہت سارے عزیزوں دوستوں کے نا م اور دعائیں یا د آتی ہیں لیکن میں دعائیں نہیں کر پا تا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ بیت اللہ کا مالک خدا ئے بزرگ و برتر تو ہر خیال سے واقف ہے پھر میں ملتجی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ کر پکا ر اُٹھتا ہوں اے خدا تو تو سب جا نتا ہے سب پر کر م فرما اور پھر میں بیٹھ کر سب دوستوں رشتہ داروں کے نام اور دعائیں یا د کر نے لگتا ہوں جنہوں نے سلام اور دعا کا کہا تھا دما غ کے پر دے پر سارے نام بار ی بار ی آنا شروع ہو جاتے ہیں حیرت اُس وقت ہو تی ہے اِ س کیفیت میں ایسے نا م بھی یاد آتے ہیں جن سے ملے آپ کو برسوں بیت گئے جنہوں نے آپ کو کچھ کہا بھی نہیں ہو تا لیکن اُ ن کے لیے دعائیں زمزموں کی طرح لبوں سے پھو ٹتی ہیں اور پھر یہ دعا اہل پاکستان سے گزر کر کر ہ ارض پر مو جو د تما م مسلمانوں کی دعائیں کر نے کے بعد اب میں یہاں پر آتے ہو ئے مہمانوں کو دیکھنا شروع کر دیتا ہوں ‘دن رات دنیاجہاں سے ہزاروں لوگ قافلوں کی شکل میں دیوانہ وار بیت اللہ کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔
عشق و محبت میں ڈوبے یہ قافلے چودہ صدیوں سے مسلسل یہاں آرہے ہیں اور آتے رہیں گے ہر روز لا کھوں لوگ حرم کعبہ میں آتے ہیں دو چار دن گزار کر واپس اپنی بستیوں میں لو ٹ جا تے ہیں لیکن بیت اللہ کا دلان اِن قافلوں سے ہمیشہ بھرا رہتا ہے پروانوں کے قافلے شب و روز دلان کعبہ میں اُترتے رہتے ہیں اِن مہمانوں سے سرائیں ہمیشہ بھری رہتی ہیں یہاں پر آنے والے زیا دہ تر دیوانے چند دن گزار کر چلے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہو تے ہیں جو ایک بار یہاں آئے اور پھر کبھی مُڑ کر واپس نہ گئے ‘خانہ کعبہ کا نظا رہ اِس طرح رگ و جان دل و دما غ میں اُتر تا ہے کہ پھر اِسے خا نہ کعبہ کو نظروں سے اوجھل نہیں ہو نے دیتے حرم کعبہ کا نظا را انہیں اپنا قیدی بنا لیتا ہے پھر وہ کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتے اپنے گھر بار رشتے داروں کو چھوڑنے والے یہ لوگ بہت عجیب اور پر اسرار ہو تے ہیں جو مکہ مدینہ کی خا ک کو اپنی آنکھ کا سرما بنا لیتے ہیں جو دنیا سے منہ مو ڑ کر صرف یہاں کے ہو جا تے ہیں ‘جو دن رات حر م کعبہ میں ہیں گزار لیتے ہیں ما دیت پر ستی میں غرق اربوں انسانوں میں یہی چند لو گ ایسے ہو تے ہیں جو دنیا کو ٹھو کر ما ر کر صرف یہاں کے ہو کر رہ جا تے ہیں ‘یہی ہو تے ہیں خدا کے دوست جو ہاتھ اٹھا دیں تو رحمت کر م چھلک چھلک پڑے جو قسم کھا لیں تو خدا اُن کی ہی ما نے اِن دیوانوں کے قرب میں چند لمحے آپ کی سالوں کی عبا دت پر بھا ری ہو تے ہیں جو کثا فت سے لطا فت کے پیکر میں ڈھل چکے ہو تے ہیں اب میں ایسے ہی پر ااسرار نوا رانی پیکر وں کی تلا ش میں تھا اِس میں کو ئی شک نہیں کہ ایما ن کے نو ر میں نہا تے ہی پراسرار بندے مشکل سے ہی ملتے ہیں اور اگر کسی کو مل جا ئیں تو اُس کے بھا گ جا گ جا ئیں اب یہ لو گ دنیا داروں کی نظر وں سے گم ہو چکے ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ گم ہو کر بھی اتنا کچھ پا چکے ہو تے ہیں بھا ری خزا نے اِن کے سامنے مٹی کے ذرات سے زیا دہ اہمیت نہیں رکھتے۔